اسلا م آباد(صباح نیوز) رہنما تحریک انصاف جنید اکبر نے کہا ہے کہ بڑا احتجاج کب کرنا ہے، اس کا فیصلہ بانی نے کرنا ہے، احتجاج کسی وقت بھی کرسکتے ہیں ، لانگ مارچ کی کال دینی پڑی تو 24 گھنٹے میں تیاریاں کرلیں گے۔اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنما و چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی جنید اکبر نے ایک نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے بھی مذاکرات کرکے دیکھ لیے ہیں کوئی نتیجہ نہیں نکلا اب بس احتجاج کا آپشن ہی بچتا ہے۔چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی جنید اکبر کا کہنا تھا کہ میں نے جلسے کے دوران گولیاں ساتھ لانے کا نہیں کہا تھا،کہا تھا کہ گولیاں کھانے کی تیاری کے ساتھ آئیں گے، احتجاج کسی وقت بھی کرسکتے ہیں ، لانگ مارچ کی کال دینی پڑی تو 24 گھنٹے میں تیاریاں کرلیں گے۔ جنید اکبر نے کہا کہ حکومت میں ہمت ہے تو ہمیں مینار پاکستان پر جلسے کی اجازت دے،ہم ثابت کریں گے کہ بغیر ریاستی وسائل کے کیسے جلسہ ہوتا ہے،بڑا احتجاج کب کرنا ہے، اس کا فیصلہ بانی نے کرنا ہے۔علاوہ ازیں پارلیمنٹ ہاوس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں جنید اکبر نے کہا کہ پارٹی میں میری یا علی امین گنڈاپور کی کوئی اہمیت نہیں، اہم صرف بانی پی ٹی آئی اور ووٹرز ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی کارکردگی میرے دائرہ اختیار میں نہیں، بانی پی ٹی آئی نے مجھے صوبائی حکومت کی کارکردگی دیکھنے کی ذمے داری نہیں دی۔پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر نے مزید کہا کہ صوابی جلسے کے ہمارے دو مقصد تھے، ایک مقصد فنانس کا تھا کہ کیا ہم کوئی ایکٹیوٹی کرسکتے ہیں یا نہیں، دوسرا لوگ غلط فہمی پھیلا رہے تھے کہ 26 نومبر کے بعد لوگ نہیں نکلیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ گولیاں ساتھ لانی ہیں، میں نے کہا تھا گولیاں کھانے کی تیاریوں کے ساتھ آئیں گے۔جنید اکبر نے یہ بھی کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ کرپشن پر کمیٹی بناوں گا، میں نے کہا تھا میں جزا و سزا کا سسٹم پارٹی کے اندر لے آوں گا، جو محنت کرے گا پارٹی میں رہے گا جو نہیں کرے گا وہ دیکھ لے۔انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کا جلسے کی حوالے سے مکمل تعاون حاصل تھا، وزیراعلیٰ نے بار بار مجھے رابطہ کرکے کہا اگر کچھ فنانس کی ضرورت ہو تو بتائیں۔پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے خط کا جواب آئے یا نہ آئے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، مجھے سنگل وکٹ ٹھیک سے کھیلنا نہیں آتا تو میں ڈبل وکٹ کیسے کھیلوں گا، علی امین کی ذمہ داریاں زیادہ تھیں اس لیے انہیں پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا۔