یو لیاواسیل یونا اور پیکا ترمیمی قانون

162

پاکستان جب سے بنا ہے اس میں شور کرنے والوں اور شور سننے والوں کا تناسب مستقل ہے۔ پیکا ترمیمی بل کے ذریعے حکومت اس تناسب کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ اب تک حکومت شور کرنے والے پریشر ہارن پر پا بندی لگاتی آئی ہے اب یہ الزام فیک نیوز شور کرنے والے صحافیوں، میڈیا ہائو سز، سوشل میڈیا، وی لاگرز اور ناقدین پر بھی گرفت کی جاسکے گی۔ اب جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوگی چاہے دو محبت کرنے والوں کے بیچ بولا گیا ہو۔ جھوٹ کے پائوں ہوں یا نہ ہوں اسے اب سچ سے آگے نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ یہ سب کچھ بہت اچھا ہے ایسا ہی ہونا چاہیے، جھوٹ پر پابندی کیوں نہ ہو؟، جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہ ہو؟ لیکن معاملہ نیتوں کا ہے۔ یہ پابندی ان کی طرف سے ہے جو خود جھوٹ کے چمپئن ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ جھوٹ کے نام پر سچ پر گرفت کی جائے گی، ناقدین کو خاموش کیا جائے گا۔ بات آگے بڑھے اس سے پہلے عالمی ادب سے ایک مختصر کہانی ملاحظہ فرما ئیے:

کچھ دن پہلے میرے آفس روم میں، میرے بچوں کی نینی (یولیا واسیلیونا) اپنا حساب کرنے آئی۔ میں نے اس سے کہا: ’’بیٹھو، یولیا… آؤ، حساب کتاب کر لیتے ہیں۔ تمہیں اکثر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن تم اتنی شرمیلی ہو کہ خود نہیں مانگتی۔ خیر، ہم نے ماہانہ تیس روبل طے کیے تھے‘‘۔

یولیا نے کہا: ’’چالیس‘‘
میں نے کہا: ’’نہیں، تیس… میرے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ میں ہمیشہ نینی کو تیس روبل ہی دیتا ہوں‘‘
اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے‘‘
میں نے پوچھا: ’’تم نے کتنے مہینے کام کیا؟
یولیا نے جواب دیا: ’’دو مہینے اور پانچ دن‘‘

میں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، دو مہینے۔ میرے پاس یہی درج ہے، تو تم ساٹھ روبل کی حق دار ہو۔ لیکن ہم اتوار کے نو دن منہا کریں گے، کیونکہ تم نے ان دنوں میں کولیا کو نہیں پڑھایا، بس اس کے ساتھ رہی تھیں۔ پھرتم نے تین دن کی چھٹی بھی لی تھی‘‘۔

یولیا واسیلیونا کا چہرہ زرد پڑ گیا، اور اس کی انگلیاں کپڑوں میں الجھنے لگیں، مگر اس نے کوئی شکایت نہ کی۔

میں نے مزید کہا: ان تین چھٹیوں کے بارہ روبل کم ہوں گے۔ کولیا چار دن بیمار تھا، تو تم نے صرف فاریہ کو پڑھایا، سات روبل اس کے کم ہوںگے۔ پھر تین دن تمہارے دانت میں درد تھا، تو بیگم صاحبہ نے تمہیں دوپہر تک آرام کرنے دیا۔ تم نے دوپہر کے بعد پڑھایا، اس کے بھی بارہ روبل کم کریں تو کل انیس روبل کم کر کے تمہارے اکتالیس روبل بنتے ہیں، ٹھیک؟‘‘

یولیا واسیلیونا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس کی ٹھوڑی کانپنے لگی، مگر وہ اب بھی خاموش رہی۔

میں نے مزید حساب لگایا: ’’نئے سال سے پہلے تم نے ایک کپ اور پلیٹ توڑ دی تھی، اس کے بھی چھے روبل کٹیں گے۔ پھر، کولیا نے تمہاری لاپروائی کے سبب درخت پر چڑھ کر اپنی جیکٹ پھاڑ لی، اس کے دس روبل کم ہوں گے۔ نوکرانی نے ایک جوتا چوری کر لیا اور یہ سب کچھ دیکھنا تمہاری ذمے داری تھی، تو اس کے پانچ روبل اور کم کرنے پڑیں گے۔ اور 10 جنوری کو تم نے مجھ سے دس روبل ادھار لیے تھے‘‘۔

یولیا واسیلیونا نے سرگوشی کی: ’’میں نے نہیں لیے تھے‘‘۔
میں نے کہا: مگر میرے پاس ریکارڈ میں لکھا ہے‘‘
وہ بولی: ٹھیک ہے، جیسا آپ کہیں‘‘۔
میں نے حساب مکمل کیا: ’’اکتالیس سے ستائیس کم کریں تو باقی چودہ روبل بچتے ہیں‘‘۔
یولیا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اس کی لمبی خوبصورت ناک پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔
اس نے ٹوٹی ہوئی آواز میں کہا: ’’میں نے صرف ایک بار تین روبل ادھار لیے تھے، اس سے زیادہ نہیں‘‘۔
میں نے چونک کر کہا: ’’واقعی؟ میں نے تو یہ ریکارڈ میں نہیں لکھا! تو چودہ میں سے تین نکال کر گیارہ بچتے ہیں۔ لو، یہ لو تمہارے گیارہ روبل!‘‘
میں نے سکے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے انہیں جیب میں ڈال لیا اور آہستہ سے کہا:
’’شکریہ‘‘۔
مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے پوچھا: ’’کس چیز کا شکریہ؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’پیسوں کا‘‘۔

میں نے کہا: ’’لیکن میں نے تو تمہیں دھوکا دیا، تم سے لوٹ مار کی، تمہارا حق مارا! اور تم پھر بھی شکریہ ادا کر رہی ہو؟‘‘

اس نے کہا: ’’دوسری جگہوں پر تو کچھ بھی نہیں ملتا‘‘۔

میں نے حیرت سے کہا: ’’کیا؟ تمہیں کچھ بھی نہیں دیا جاتا؟ کمال ہے! میں تو تم سے مذاق کر رہا تھا، تمہیں سبق سکھا رہا تھا! یہ لو، تمہارے اصل اسی روبل، جو میں نے تمہارے لیے لفافے میں رکھے تھے!‘‘
میں نے رقم اس کے حوالے کی اور مزید کہا: لیکن کیا تم اتنی بے بس ہو؟ تم نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ تم خاموش کیوں رہیں؟ کیا دنیا میں ایسا ممکن ہے کہ تم اپنا حق مانگنے سے بھی قاصر ہو؟ کیا تم واقعی اتنی بے بس ہو؟‘‘

یولیا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’’ہاں، ایسا ممکن ہے‘‘۔

میں نے اسے بغور دیکھا، پھر سوچنے لگا: کتنا دردناک ہے اس دنیا میں کمزور ہونا!

پیکا ترمیمی بل پر عمل درآمد کی صورت میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سچ بولنے والوں کا علاج یو لیا کے حساب کتاب کی طرح کیا جائے گا تب صحافی، میڈیا ہائوسز، اینکر پرسنز اور ناقدین یو لیا کی طرح ہی کمزور اور بے بس ہوں گے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ جھوٹ پر پابندی کیوں نہ ہو؟ جھوٹی خبر پر سزا کیوں نہ دی جائے؟