بلو چستان میں زرعی ٹیکس کا نفاذ قابل مذمت ہے، زمیندار ایکشن کمیٹی

108

کوئٹہ(نمائندہ جسارت)زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان نے بلوچستان اسمبلی سے ظالمانہ زرعی ٹیکس کے نفاذ کی مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ بلوچستان میں سالانہ ایک فصل کاشت ہوتی ہے جبکہ پنجاب وسندھ میں 3سے 4فصلیں کاشت ہوتی ہے جو نہری آبپاشی کے ذریعے ہوتی ہے لیکن بلوچستان کے زمیندار 600فٹ سے 1200فٹ تک زیر زمین پانی بجلی کے ذریعے نکال کر کاشتکاری کرتے ہیں اس طرح کے واضح تفریق کے باوجود پیمانہ ایک ہونا فیڈریشن کیلئے نیک شگون نہیں۔زمیندار ایکشن کمیٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان اسمبلی نے آئی ایم ایف کے کہنے پر صوبے کے غریب زمینداروں پر ظالمانہ زرعی ٹیکس کانفاذ کرکے زمینداروں کی تباہی میں رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ترجمان نے کہاکہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا 44فیصد ہے جہاں80فیصد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران وفاقی وصوبائی حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے کیسکو نے زرعی شعبے کی تباہی کا مکمل سامان کیاہے ،وفاقی وصوبائی حکومتوں کی موجودگی میں کیسکو کی جانب سے جب چاہیے بجلی بند کردی جاتی تھی جس کی وجہ سے زرعی شعبہ شدید مالی بحران سے دوچار ہوگیا آج صوبے کا ہر زمیندار قرض میں ڈوبا ہواہے ،بلوچستان زمیندار ایکشن کمیٹی نے بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ کے خلاف 7دن تک دھرنا دیا اس جدوجہد کے نتیجے میں زرعی ٹیوب ویلز کی سولر پر منتقلی کا منصوبہ شروع ہوا جہاں ایک ماہ کا وعدہ کیاگیاتھا وہاں ایک سال گزر گیا لیکن اس وعدے کو عملی جامہ پہنانا اب بھی باقی ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف کے دبائو میں آکر بلوچستان اسمبلی سے ایک ظالمانہ زرعی ٹیکس کا نفاذ کرکے بلوچستان کے زمینداروں کی جو رہی سہی زمینداری تھی وہ بھی اب زرعی ٹیکس میں چلی جائیگی پہلے قرض اب زرعی ٹیکس جس سے بلوچستان کے زمیندار خودکشی کرنے پر مجبور ہونگے ،ترجمان نے کہاکہ اس سے قبل بھی بلوچستان اسمبلی نے ہمیشہ عوامی مفاد کے بجائے مخصوص مفادات کیلئے قوانین پاس کئے حالانکہ جس ظالمانہ زرعی ٹیکس کو پاس کیاگیاہے اس کے خلاف زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا گیا احتجاج کی وجہ سے اسپیکر کو زمینداروں سے مذاکرات کیلئے رولنگ دینا پڑی اور حکومت واپوزیشن ارکان نے زمیندار ایکشن کمیٹی کے قائدین کویقین دہانی کرائی کہ وہ اس ظالمانہ زرعی ٹیکس کو پاس نہیں کریں گے لیکن اپنے وعدے کا پاس رکھنے کے بجائے ایوان نے اس ظالمانہ ٹیکس کانفاذ کردیا،بلوچستان اسمبلی پہلے اپنے پاس کردہ قوانین پر عمل درآمد تو کرائیں ایسے قوانین کے پلندے صرف عوام کو لوٹنے کے بہانے ہیں جس ظالمانہ ٹیکس کانفاذ کیاگیاہے اس میں ٹیکس کی رقوم، جرمانے وغیرہ ویسے ہی ہیں جیسے پہلے والے ڈرافٹ میں تھے توپھر قائمہ کمیٹی میں بحث ومباحثے کا کیا فائدہ جب سفارشات مرتب کی گئی لیکن وہ قانون کا حصہ ہی نہیں ہے۔زمیندار ایکشن کمیٹی ایسے عوام وزمیندار دشمن رویے کی مذمت کرتی ہے اورمطالبہ کرتی ہے کہ فوری طورپر اس قانون سازی کو واپس لیاجائے اور اگر مارچ تک سولر منصوبہ مکمل نہیں کیا گیا تو تمام صوبے کے زمیندار روڈوں پر ہوں گے جس کی ذمے داری وفاقی و صوبائی حکومتوں پر عائد ہوگی۔