5 فروری کو اہل کشمیر کے ساتھ یوم یکجہتی مناتے ہوئے کم و بیش 35 سال ہوگئے ہیں۔ اس دن کوہالہ سے مظفر آباد تک انسانی ہاتھوں کی طویل زنجیر بھی بنائی جاتی ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان اور کشمیر کے عوام ایک ہیں اور ہمیشہ ایک رہیں گے۔ وہ متحد ہو کر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں گے اور اس آزادی کو یقینی بنائیں گے۔ اس روز سرکاری تعطیل ہوتی ہے، سرکاری ملازمین یہ دن گھر پر سو کر گزارتے ہیں البتہ سیاسی جماعتیں اس دن جلسے جلوس اور تقریبات کا اہتمام کرکے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتی ہیں۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ کیونکہ اس کی تجویز پر یہ دن منانے کا آغاز ہوا تھا۔ 1990ء میں روس کی افغانستان میں عبرتناک شکست کے بعد جب مقبوضہ کشمیر میں جہاد کا آغاز ہوا اور کشمیری نوجوانوں نے قابض بھارتی افواج کے خلاف بندوقیں اٹھالیں تو امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے ان کی تائید و حمایت کے لیے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کی تجویز پیش کی۔ اُس وقت پنجاب میں میاں نواز شریف وزیراعلیٰ تھے۔ قاضی صاحب ان سے ملے اور انہیں اس تجویز سے آگاہ کیا۔ میاں نواز شریف نے تجویز کی حمایت کی اور پنجاب میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے سرکاری تعطیل کا اعلان کردیا۔ بعد میں قاضی صاحب ایک وفد کے ہمراہ وفاق میں برسراقتدار وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے بھی ملے اور انہیں اس تجویز سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بھی حمایت کی اور 5 فروری کو پورے پاکستان میں سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کردیا۔ اس طرح 5 فروری کو قومی تعطیل کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
یہ دن کئی سال تک پورے جوش و خروش سے منایا جاتا رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے خلاف جہاد بھی جاری تھا اور حکومت پاکستان کی تائید اسے حاصل تھی۔ پاکستان میں جہادی تنظیمیں بھی سرگرم عمل تھیں۔ کشمیریوں کی نمائندہ جہادی تنظیم ’’حزب المجاہدین‘‘ بھی آزاد کشمیر سے آپریٹ کررہی تھی۔ بھارت شدید دبائو میں تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بھارت بھی روس کی طرح مقبوضہ کشمیر سے پسپا ہونے پر مجبور ہوجائے گا کہ اچانک نیویارک میں نائن الیون برپا ہوگیا۔ یہ واقعہ ایسا تھا جس نے پوری دنیا میں قیامت برپا کردی۔ امریکا نے اس واقعے کا الزام مسلمانوں پر لگایا اور دنیا بھر میں آزادی کی جدوجہد کرنے والی اسلامی عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ پاکستان میں اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اس نے امریکا کے آگے سرنڈر کردیا۔ پاکستان میں تمام جہادی تنظیموں پر پابندی لگادی، کنٹرول لائن کے راستے مجاہدین کی آمدو رفت روک دی، بھارت نے بھی حالات کو اپنے حق میں سازگار دیکھ کر مقبوضہ کشمیر میں جارحانہ کارروائی شروع کردی۔ اس طرح جہادِ کشمیر جو اپنی منزل کے قریب تھا دور ہوتا چلا گیا۔
بھارت میں انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے برسر اقتدار آنے اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ مودی نے 5 اگست 2019ء کو بھارتی پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے ہی آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنالیا۔ یہ سراسر بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کی خلاف ورزی تھی لیکن پاکستانی حکمران اس موقع پر خاموش تماشائی بنے۔ انہوں نے بھارت کی اس یکطرفہ کارروائی کے خلاف نہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی کوشش کی نہ سفارتی سطح پر عالمی برادری کو متحرک کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کا قدم امریکا کو اعتماد میں لے کر اٹھایا تھا۔ امریکا میں اس وقت ٹرمپ کی حکومت تھی کہا جاتا ہے کہ اس نے پاکستانی حکمرانوں کو خاموش رہنے کا مشورہ دیا اور انہیں یقین دلایا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرادے گا۔ چنانچہ انہوں نے بھارتی کارروائی پر چُپ سادھ لی۔ پاکستان کی اُس وقت کی عسکری قیادت کا رویہ بھی نہایت شرمناک رہا، اس نے صحافیوں کو بلا کر یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم بھارت سے لڑ نہیں سکتے، ہمارے ٹینک ناکارہ اور ہمارے لڑاکا طیارے فرسودہ ہیں، ہمارے پاس فیول بھی نہیں کہ دوچار دن گزار سکیں۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس تھی۔ آج ہم یوم یکجہتی کشمیر اس حال میں منارہے ہیں کہ ہمارے دامن میں شرمندگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ بلاشبہ پاکستانی عوام کے دل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکمرانوں کا رویہ کشمیر کاز کے لیے کبھی مخلص نہیں رہا۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ پاکستانی جرنیل جو بار بار اپنے ہی ملک کو فتح کرکے اس پر حکومت کرتے رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کو فتح کرنے کے لیے ایک قدم بھی نہ اُٹھا سکے۔ انہیں جو بھی مواقع میسر آئے اپنی بزدلی اور مصلحت اندیشی سے انہیں گنوا دیے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نئے سرے سے اپنی کشمیر پالیسی کا جائزہ لیں اور بھارت کو دبائو میں لانے کے لیے جارحانہ سفارتی حکمت عملی اختیار کریں۔