کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) مسئلہ کشمیر سیاسی، جمہوری، عسکری جدوجہد اور مزاحمت ہی سے حل ہو گا‘ جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا‘ بھارت لاتوں کا بھوت ہے‘ باتوں سے نہیں مانے گا‘ مقبوضہ وادی کو ہڑپ کرنے کی سازش کر رہا ہے‘ مذاکرات کے ذریعے تنازع حل ہونا ہوتا تو کب کا حل ہو چکا ہوتا‘ بھارت کا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہ کرنا عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے ‘ 35 برس میں ایک لاکھ سے زاید کشمیری شہید ہوئے۔ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر گلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان، سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر محمد فاروق فرحان، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی، صدر پریس کلب دھیرکوٹ ضلع باغ آزاد کشمیر و معروف سماجی رہنما راجا مہتاب
اشرف خان اور اسلامک اسکولز ایسوسی ایشن آف آسٹریلیا کے چیئرمین عبداللہ خان نے جسات کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا مسئلہ کشمیر بھارت سے مذاکرات کے ذریعے حل ہوسکتا ہے؟‘‘ ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ 77 برس قبل اقوام متحدہ کو زبان دی تھی کہ آپ اگر مجاہدین کے ساتھ ہماری جنگ بندی کرادیں تو ہم سیز فائر کے بعد فری اینڈ فیئر استصواب رائے کروائیں گے جس کے ذریعے ہر کشمیری سے پوچھا جائے گا کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر کیا وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے یا پھر بھارت کو جوائن کرنا چاہتا ہے‘ بھارت یہ زبان دنیا کو دے کر پیچھے ہٹ گیا‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھارت، پاکستان اور کشمیر کے معروضی حالات کا خود معائنہ کیا‘ بڑے کمیشن بنائے اور پھر سلامتی کونسل نے ہماری قرارداد پاس کی اور یہ طے پایا کہ دونوں طرف کے کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کے لیے غیر جانبدار اور شفاف انداز سے رائے شماری کا حق دیا جائے گا‘ اس دن کے بعد سے بھارت ہر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ اپنے وعدے سے مکرتا چلا گیا اور اس نے کشمیر پر قبضے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کیے اس وقت 10 لاکھ سے زاید بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں موجود ہیں‘دنیا کے کسی مقبوضہ علاقے میں اتنی بڑی فوج تعینات نہیں ہے بلکہ اس کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں کہ کوئی شخص بھی جو حق خود ارادیت کا مطالبہ کرے اس کو گولی مار دے‘ قید کر دے‘ معزور کر دے اور اگر کوئی خاتون ہے تو اس کی عزت برباد کر دے‘ یہ وہ طریقہ ہے جو بھارت نے اختیار کیا ہوا ہے اور بطور خاص 5 اگست 2019ء کو اس نے اپنے بھارتی آئین کے 2 اہم آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کی جو ایک خصوصی حیثیت تھی اس کو بھی ختم کر دیا ہے اور اب کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کر رہا ہے‘ اس مقصد کے لیے بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندوئوں کو لاکر یہاں بسایا جارہا ہے ‘ کشمیری حریت قیادت جیلوں میں ہے اور نوجوان ٹارچر سیلز میں تشدد برداشت کر رہے ہیں‘ میڈیا پر مکمل طور پر پابندی ہے‘ انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے ‘ دراصل بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے تو ایسے میں ہم پھر کہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن مذاکرات کی میز پر بھارت کو لانے کے لیے ہمیں اپنی مزاحمت کے سارے طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جس میں عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے جلسے جلوس کرنے ہوں گے اور اس طرح اقوام متحدہ کے دفاتر میں یادداشتیں پیش کرنی ہوںگی‘ جب تک آپ جہاد نہیں کریں گے بھارت نہیں مانے گا کیونکہ وہ لاتوں کا بھوت ہے‘باتوں سے نہیں مانے گا‘ اس لیے بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ اہم اقدام ہوگا کیونکہمسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ مضبوط ہتھیار رہا ہے جب تک اس کو آپ استعمال نہیں کریں گے تب تک وہ مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گا۔ انہوں نے اگر مذاکرات کی میزپر آنا ہوتا تو وہ77 برس کبھی نہ لیتے ‘مسئلہ کشمیر کو تاریخ کے صفحات سے بالکل غائب کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں‘ کشمیری شہادتوں کے لیے تیار ہیں‘ تحریک آزادی کشمیر 77 برس سے جاری اور اپنی منزل کی طرف رواں ہے‘ جدوجہد میں شامل مرد و زن نہ تھکے ہیں نہ جھکے ہیں نہ بکے ہیں‘ مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہمہ گیر جہاد ہے۔ محمد فاروق فرحان نے کہا کہ ظاہر ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف مذاکرات کے ذریعے سے تو حل نہیں ہو سکتا‘ سیاسی ،جمہوری،سفارتی اور عسکری جدوجہد اور مزاحمت سے ہی بھارت کو مذاکرات کی میز تک لایا جاسکتا ہے اور اس طریقہ کار کے تحت ہی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے‘ کشمیری اس کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں لیکن ہماری حکومت اس حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے اس لیے ہماری حکومتکو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘ بین الاقوامی سطح پر لوبنگ اور میڈیا میں ہائی لائٹ اور اس کو دوبارہ ایشو بنانے کی ضرورت ہے‘ کشمیر کا مسئلہ کافی حد تک دب چکا ہے اور اصل چیز تو یہ ہے کہ جو مزاحمت مقامی ہوتی ہے اس ہی کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے‘ ابھی ہم نے حال ہی میں غزہ کو دیکھا ہے کہ اسرائیل جیسی ریاست کا حماس کے مجاہدین اور فلسطینیوں نے سامنا کیا اور بالٓاخر انہوں نے اپنی باتوں کو اسرائیل سے منوایا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان سیاسی طور پر اس میں اپنا کردار ادا کرے اور مقامی لوگ اگر مزاحمت اور جدوجہد کریں اور پورے پاکستانی قوم کوان کی پشت پر کھڑے ہونا چاہیے ‘ بھارت کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا‘ مسئلہ کشمیر پر بھارت جن راستوں پر چل رہا ہے وہ راستے بھارت کے لیے خود نقصان دہ ہیں۔مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اگر مذاکرات کے ذریعے سے، اقوام متحدہ کے قراردادوں یا قومی اسمبلی کی قراردادوں سے اگر حل ہونا ہوتا تو کب کا کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا لیکن مذاکرات سے کچھ بنا نہیں اور نہ ہی بنے گا بلکہ اس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کی ضرورت ہے اور جب تک آپ جہاد نہیں کریں گے قتال فی سبیل اللہ زندہ نہیں کریں گے اس وقت تک کشمیر کو آزاد نہیں کرایا جا سکتا ہے‘ پاکستان کے حکمرانوں کو شرم آنی چاہیے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو پھر یہ بتائیں کہ انہوں نے اپنی شہ رگ کی آزادی کے لیے اب تک کیا عملی اقدامات کیے ہیں ‘اگر نہیں اٹھائے تو اٹھائیں بصورت دیگر یہی ہوتا رہے گا جو کچھ ہو رہا ہے ۔ راجا مہتاب اشرف خان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر گزشتہ 77 برس سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر موجود ہے اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے 17 قراردادیں اقوام متحدہ کے چارٹر پر یا ان کے فورم پر موجود ہیں‘ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے اس لیے کہ اس سے پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان 3 سے زاید جنگیں ہو چکی ہیں لیکن جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن مقبوضہ وادی میں بھارت نے اپنی10 لاکھ فوج تعینات کی ہوئی ہے وہاں عملًا لاک ڈاؤن کی کسی کیفیت ہے‘ اگرکشمیریوں کے لیے پاکستان سفارتی محاز پر لابنگ کرے ‘اپنے برادر مسلم ممالک، چین اور دیگر ممالک کو اعتماد میں لے تو اس حوالے سے پیش رفت ہو سکتی ہے اور کوئی حل نکل سکتا ہے یہ مذاکرات کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے‘ گزشتہ تقریباً 35 برس سے ایک لاکھ سے زاید کشمیریوں نے قربانیاں دی ہیں ‘ خواتین کی عزتوں کو لوٹا گیا ہے۔ عبداللہ خان نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا ناگزیر ہے‘ کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد کو سلام پیش کرتا ہوں، حق خود ارادیت ہر انسان کا بنیادی حق ہے‘ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دینا ہوگا، پاکستان کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کرنا بھارت کی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، عالمی برادری کو بھارت کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا چاہیے‘ بھارتی فوج نے کشمیری عوام کو ان کے جائز حق سے محروم کر کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو اس کی اصل حیثیت میں بحال کیا جائے اور بھارت کی طرف سے نہتے اور بے گناہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بند کیے جائیں‘ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا فوری حل تلاش کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں آزاد فضا میں زندگی بسر کر سکیں۔