امریکا کی اقتصادی دہشت گردی!

195

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دھمکیوں پر عمل کرتے ہوئے چین، کینیڈا اور میکسیکو پر نئے ٹیرف کا اطلاق کردیا ہے، میکسیکو اور کینیڈا سے آنے والی زیادہ تر مصنوعات پر 25 فی صد ٹیرف نافذ کیا گیا ہے، جبکہ چین سے درآمد ہونے والی اشیاء پر 10 فی صد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، کینیڈا سے درآمد ہونے والی توانائی کی مصنوعات پر 10 فی صد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ وائٹ ہائوس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر کسی ملک نے ٹیرف کے جواب میں ردعمل دیا تو اس سے نمٹنے کی بھی تیاری کرلی گئی ہے۔ اس ٹیرف پر تبصرہ کرتے ہوئے واشنگٹن میں موجود چینی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ تجارت اور محصولات کی جنگ میں کسی کی فتح نہیں ہوتی، چین اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس اقدام کا جواب دے گا، ٹیرف پالیسی سے امریکا کے اندرونی مسائل حل نہیں ہوسکتے، امریکی اقدامات سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا، امریکا کا اقدام دنیا کے لیے خسارے کا سودا ہے، دوسری جانب کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی امریکا پر 25 فی صد جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، میکسیکو نے بھی جواب میں امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں بھی چین سے درآمد ہونے والی پچاس بلین ڈالر کی مصنوعات پر 25 فی صد ٹیرف عائد کیا تھا، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ نئے ٹیرف کے باعث کینیڈا اور امریکا کی معیشتوں کو شدید نقصان پہنچنے گا۔ دونوں ممالک کی تجارت ان کے جی ڈی پی کا 70 فی صد بنتی ہے۔ کینیڈا اپنی برآمدات کا 78 فی صد جبکہ میکسیکو 80 فی صد امریکا کو فروخت کرتا ہے، جبکہ امریکا ہر سال 3.17 ٹریلین ڈالر مالیت کی اشیا درآمد کرتا ہے۔ ٹرمپ کے ان اقدامات اور معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے، امریکی میڈیا ہی نہیں عالمی اقتصادی امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا بھی خیال ہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام سے تجارتی جنگ کا اسٹیج تیار ہوگیا ہے۔ دریں اثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی دھمکی دی ہے کہ اگر بریکس ممالک نے بین الاقوامی تجارت میں امریکی ڈالر کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا تو ان پر 100 فی صد محصولات عائد کر دیں گے، جس کے ردعمل میں روسی صدر کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے خبردار کیا ہے کہ برکس اتحاد کو امریکی ڈالر کے حوالے سے دی گئی ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی الٹا امریکا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی، ان کا کہنا تھا کہ یہ محض ایک خوش فہمی ہے کہ برکس ممالک پر ٹیکس لگا کر ڈالر کی قدر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی کا رجحان سامنے آیا، امریکی صدر کے اقدام کے بعد ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا، جبکہ ٹوکیو اور سیئول اسٹاک مارکیٹس میں 2 فی صد سے زیادہ کمی دیکھی گئی، اسی دوران سڈنی، سنگاپور اور ویلنگٹن میں بھی نمایاں مندی کا مشاہدہ کیا گیا، اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں چینی یوان اور کینیڈین ڈالر کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی۔ مزید برآں، یورو گزشتہ دو سال سے بھی کم ترین سطح پر پہنچ گیا اور مستحکم سمجھے جانے والے سوئس فرانک کی قدر میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔ حلیفوں اور حریفوں دونوں کے خلاف تجارتی ٹیرف کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ سب امریکا معاشی حکمت ِ عملی کے طور پر کر رہا ہے تاکہ تجارتی توازن امریکا کے حق میں ہوسکے، اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد میکسیکو پر غیر قانونی فینٹینائل کی تیاری اور غیر قانونی امیگریشن کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ نے چین، کینیڈا ور میکسیکو پر محصولات عاید کر کے ایک جنگ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے، اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اس سب کا مقصد تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے تاکہ امریکی معیشت میں بہتری لائی جاسکے، حقیقت ِ حال یہ ہے کہ محصولات عائد کر کے امریکا نے آزاد منڈی کے تجارتی اصولوں سے انحراف کیا ہے جس کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ ملکوں کو کم سے کم تجارتی رکاوٹوں کے ساتھ کاروبار کی اجازت ہو، ٹیرف کے نفاذ سے نہ صرف تجارتی رکاوٹیں پیدا ہوں گی بلکہ عالمی تجارتی نظام میں بھی عدم توازن پیدا ہوگیا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے آزاد تجارت کے فروغ کے لیے جو اصول مرتب کیے ہیں اس میں اس کا بھی خیال نہیں رکھا گیا، امریکا کے اس اقدام کے جواب میں جو ردعمل سامنے آئے گا، اس سے عالمی تجارت پر لازمی طور پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس ٹیرف سے امریکی صارفین کو درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، جو مہنگائی کا باعث بنے گا، اس سے امریکی برآمد کنندگان کو بھی مشکلات ہوں گی ان کی مصنوعات پر بھی اب جوابی ٹیرف عاید کیے جائیں گے جس کا اعلان کیا جاچکا ہے، اقتصادی توازن میں بھی کمی آئے گی، جس کے نتیجے میں عالمی معیشت کی بحالی اور ترقی کے امکانات بھی معدوم ہو کر رہ جائیں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ چین کے ابھرتی ہوئی معیشت امریکا کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گئی ہے، امریکا نے چین کی اسی اقتصادی پیش رفت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ٹیرف عائد کیے ہیں، جس کا مقصد چین کی تجارتی پالیسیوں اور اقتصادی ترقی کو محدود کرنا ہے، امریکا چین کی اقتصادی ترقی سے اس قدر خائف ہے کہ اس نے چین کی سرگرمی کو روکنے کے لیے پاناما کینال پر بھی دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش ظاہرکی ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے پر اعتراضات بھی اسی لیے اٹھائے گئے کہ امریکا کو یقین ہے کہ اس منصوبے سے چین کو فائدہ ہوگا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چین کی برآمدات کا حجم تقریباً 3.47 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ 2024 کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی برآمدات کا حجم 1.12 ارب ڈالرتھا، امریکا مجموعی طور پر 35 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے، یہ قرضہ امریکا کی کل جی ڈی پی کا 120 فی صد بنتا ہے اس اعتبار سے ہر امریکی شہری اوسطاً ایک لاکھ ڈالر کا مقروض ہے، یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ امریکا پر قرضوں کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، اپنی معیشت کی بحالی اور استحکام نئے امریکی صدر کے لیے ایک چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ اس نوع کے اقدامات کر رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے وہ پہلے صدر ہیں جنہوں نے امریکا فرسٹ کا نعرہ لگایا ہے، ان کی پہلی ترجیح ہی اپنی معیشت کو سنبھالا دینا ہے اسی لیے انہوں نے ملک سے تارکین ِ وطن کو بے دخل کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف میکسیکو سے تعلق رکھنے والے پانچ لاکھ سے زائد تارکین ِ وطن زراعت کے شعبے میں کام کر رہے ہیں اور عملاً انہوں نے امریکی زراعت کو سنبھالا ہوا ہے، یہ تارکین وطن فصلوں کی کاشت، اور دیگر زرعی امور انجام دے رہے ہیں، جو امریکی زراعت کی معیشت کے لیے اہم ہیں، اگر ان تارکین وطن کو بے دخل کیا جاتا ہے، تو امریکی زراعت کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ شعبہ انہی تارکین پر انحصار کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نوع کے اقدامات کے ذریعے ڈونلڈ ٹرمپ چین کی اقتصادی پیش رفت کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا ہچکولے کھاتی امریکی معیشت کی نیاکسی نئے گرداب میں پھنستی ہے؟