امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے دوران جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے تجزیہ کار اور مبصرین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں وہ امریکا کو بھارت کے نقوشِ قدم پر چلانے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اپنے دوسرے عہدِ صدارت کا آغاز انقلابی نوعیت کے اور حیرت انگیز اقدامات سے کیا ہے۔ انہوں نے کئی متنازع ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیے ہیں۔ غیر قانونی تارکینِ وطن کے معاملے میں وہ ذرا سی بھی لچک دکھانے کو تیار نہیں۔
امریکی پالیسیوں میں متعارف کرائی جانے والی تبدیلیاں اس بات کی طرف واضح اشارا کر رہی ہیں کہ امریکا اب باہر کم دیکھے گا اور اپنے معاملات کو زیادہ سے زیادہ درست کرنے پر متوجہ ہوگا۔ باہر نہ دیکھنے کا مطلب محض یہ نہیں کہ امریکا عسکری مہم جوئی سے گریز کرے گا بلکہ یہ بھی ہے کہ اب امریکا کسی بھی حلیف یا پارٹنر کی مدد کرنے کے معاملے میں تیزی اور گرم جوشی نہیں دکھائے گا۔ بھارت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کو اولیت دیتا ہے مگر اِس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوسروں اور بالخصوص حلیفوں کے مفادات کو یکسر نظر انداز کردیا جائے۔ بھارت ایسا ہی کرتا آیا ہے۔ اب امریکا بھی کچھ ایسی ہی پالیسی یا حکمتِ عملی اختیار کر رہا ہے۔
بھارت نے ایک زمانے سے یہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ روایتی اتحادوں پر قومی مفادات کو ہر حال میں ترجیح دی جانی چاہیے۔ نومبر 2024 میں بھارت کے وزیرِخارجہ ایس جے شنکر نے یہ بے باک بیان دیا تھا کہ یورپ کو خوش کرنے کی بھارت بھاری قیمت کیوں ادا کرے؟ یہ بیان انہوں نے روس سے بڑے پیمانے پر تیل خریدنے پر کی جانے والی تنقید کے جواب میں دیا تھا۔ جب بھارت پر یوکرین جنگ کے تناظر میں روس سے تعلقات خراب کرنے کے لیے دباؤ بڑھا تو ایس جے شنکر نے کہا کہ روس سے تیل کی خریداری پر کس کو تکلیف ہے اور بھارت کو اس معاملے میں کیوں گھسیٹا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت نے امریکا سے بھی تعلقات بہتر رکھے اور روس کو بھی ناراض کرنے سے گریز کیا۔ امریکا نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کہتے رہے ہیں کہ امریکا اپنے مفادات کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کرسکتا۔ بیلینسنگ ایکٹ ہر ریاست کے لیے لازم ہوا کرتا ہے۔ امریکا نے بھی سب کو خوش رکھنے کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی۔ اب وہ باہر دیکھنے سے گریز کر رہا ہے۔ بھارت کی طرح اب امریکا بھی خارجہ پالیسی کے میدان میں روایتی اتحاد سے وابستہ رہنے کی راہ سے ہٹ رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مدت کے لیے صدر کا منصب سنبھالتے ہی میکسیکو اور کینیڈا جیسے بڑے ٹریڈ پارٹنرز کو بھی ناراض کرنے سے گریز نہیں کیا ہے اور وہ بھی محض دس بارہ دن میں۔ بھارت بھی اِسی راہ پر چلتا رہا ہے۔ وہ اپنے مفادات کو اتحاد یا اتحادوں کی تشکیل پر ترجیح دیتا رہا ہے۔ ٹرمپ روایتی پارٹنرز کو ناراض کرنے کی حد تک چلے گئے ہیں۔ ٹرمپ نے پہلے عہدِ صدارت میں بھی سب سے پہلے امریکا کا نعرہ لگایا تھا اور اب پھر وہ اِسی نعرے کی بنیاد پر کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ تنقید کی پروا کیے بغیر بڑھتے چلے جارہے ہیں۔