پیکا ایکٹ کالاقانون ہے،حکومت صحافت اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے

64

کراچی (رپورٹ منیر عقیل انصاری) پیکا ایکٹ کالا قانون ہے‘ حکومت صحافت اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے‘کرپٹ افسران کو تحفظ دینے کیلیے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا ئی جارہی ہے‘ صحافیوں پرسرجیکل ا سڑائیک کی گئی ‘ تفتیشی اداروں کا کردار بڑھا دیا گیا ‘پارلیمان میںبل اسٹینڈنگ کمیٹی کے ذریعے منظور کیا جاتا ہے،بحث نہیں ہوتی۔ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاسی رہنما، سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی‘ کراچی پریس کلب کے سیکرٹری محمد سہیل افضل خان، عام لوگ اتحاد پارٹی کے رہنما اور عدالت عظمیٰکے سابق جج وجیہ الدین احمد‘ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے سیکرٹری جنرل، سینئر صحافی، معروف شاعر اے ایچ خانزادہ‘ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے رہنما، سینئر صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس اور ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن کے لیے
کام کرنے والی نگہت داد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’کیاحکومت پیکا ایکٹ کے ذریعے لوگوں کی آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانا چاہتی ہے؟ میاں رضا ربانی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو میڈیا کے حوالے سے قوانین بنانے ہیں تو وہ ڈائیلاگ کا اہتمام کرے، مشترکہ تجاویز کی روشنی میں بل پارلیمان سے قانون پاس کرائے۔ رضا ربانی نے پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ کنٹرولڈ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مزید قدغن لگیں گی‘ اب مفاہمت کی جاتی ہے‘ جب بھی پارلیمان کے اندر کوئی بل پیش کیا جاتا ہے اس پر بحث کرنے کے بجائے رسمی طور پر بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا جاتا ہے‘ دونوں پارلیمان پر بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا جاتا ہے‘ اس عمل کے ذمہ دار صرف سیاست دان ہی نہیں سوسائٹی بھی ہے‘ کیوں کہ ہمارے یہاں مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے‘قانون سازی کے حوالے سے پارلیمان کی وقعت ختم ہوچکی ہے‘ میں صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے کے منافی ہے۔ سہیل افضل خان کا کہنا ہے کہ پریونشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ترمیمی بل کے نفاذ سے صحافتی آزادی اور سول رائٹس پر کام کرنے والوں پر اثر پڑے گا‘ پیکا بل ہماری توقع سے پہلے ہی پاس ہوگیا ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت قوانین کے لیے الفاظ اچھے استعمال کرتی ہے لیکن الفاظ کی آڑ میں آوازوں پر قدغن لگ گئی ہے‘ بل کو اچانک قومی اسمبلی سے منظور کروانے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے‘ کراچی پریس کلب اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد باقاعدہ تحریک کا آغاز کرے گا جو اس قانون کے واپس لیے جانے تک جاری رہے گی۔ وجیہ الدین احمد نے پیکا ایکٹ کو متنازع قانون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ترمیم شدہ پیکا ایکٹ سے مسائل مزید بڑھیں گے‘ قانون کا مقصد چند افراد کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن جو باتیں ہوا کرتی تھیں وہ اب بھی ہوں گی‘ پریونشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایکٹ 2016ء میں ن لیگ کی حکومت لے کر آئی تھی، پھر جب یہ اپوزیشن میں چلے گئے اور زیر عتاب آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم سے غلطی ہوگئی ہے اور کہا کہ حکومت میں آکر اس قانون کو ختم کردیں گے‘ مگر حکومت میں آنے کے بعد پیکا ایکٹ کو مزید بگاڑ دیاگیا۔ اس میں اظہارِ آزادی رائے کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے وعدے کے باوجود صحافیوں سے مشاورت نہیں کی گئی‘ پیکا ایکٹ کا مقصد اداروں کا تحفظ نہیں ہے‘ بلکہ اداروں میں غلط کام کرنے والے افراد کو تحفظ فراہم کرتاہے‘ پیکا جیسے قوانین اور انٹرنیٹ بندش سے صرف ملک میں مخالفین کی آواز کو کسی حد تک دبایا جاسکتا ہے‘ 3 سال کی سزائیں اسی سلسلے کی کڑی ہیں لیکن جو باتیں ہوا کرتی تھیں وہ تو ہوں گی‘ حکومت وہ کام کر رہی ہے جس سے داخلی مسائل کم نہیں ہوں گے بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوگا۔ اے ایچ خانزادہ کا کہنا ہے کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا رہی ہے‘ ہم پیکا ایکٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں‘ ہم عوام اور میڈیا نمائندگان کے ساتھ کھڑے ہیں‘ پیکا ایکٹ میں کی گئی حالیہ ترمیم کا مطلب ہے کہ اب گروپ اور حکومت دونوں اس قانون کو لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ اس ترمیم میں سب سے پہلے شکایت کرنے والے کی تعریف کو وسعت دی گئی ہے جس کے مطابق نہ صرف براہ راست متاثر ہونے والا شخص بلکہ جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ غلط ہوا ہے وہ بھی اس میں شامل ہو گا‘ اس میں اداروں کو بھی شکایت کنندہ کی تعریف میں شامل کر لیا گیا ہے‘ اظہار رائے کے لیے یہ سزا انتہائی سخت اور تشویشناک ہے کیونکہ اس کی تعریف مبہم ہے اور آسانی کے ساتھ اس کا غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے‘ اس ترمیم سے حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے یہ تعین کر سکتی ہے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ بول رہا ہے اور یہ آزادی اظہار رائے کے بین الاقوامی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی ہے‘ اس ترمیم کے ذریعے حکومت سوشل میڈیا پر ہر چیز کو کنٹرول کرے گی یعنی حکومت خود ہی جج ہو گی اور فیصلہ ساز بھی۔ اگر سوچا اور سمجھا جائے تو ایک طرح سے آزادی اظہار رائے کا گلا گھوٹنے کے لیے یہ آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے تحقیقاتی صحافت بری طرح متاثر ہو گی‘ پچھلے 24 گھنٹے میں خیبر سے کراچی تک تمام صحافی بیک آواز پیکا ایکٹ کا قاتل ٹیکہ مسترد کرچکے ہیں۔ دوسری جانب اخباری تنظیمیں‘ پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (PBA)‘ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (CPNE) اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) نے بھی میڈیا پر اس سرجیکل ا سڑائیک کو سرے سے مسترد کر دیا ہے‘ ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو بھی مادر پدر آزادی نہیں ہوناچاہیے بلکہ اس میں ایک ایڈیٹوریل میکینزم ہونا چاہیے، توقع کرتے ہیں حکومت پیکا ایکٹ میں ترامیم کے لیے صحافتی تنظیموں سے رابطے کرے گی۔ مظہر عباس کا کہنا تھا کہ حکومت نے اگر بل واپس نہیں لیا تو وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے، پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیں گے اور بھوک ہڑتال کریں گے‘ کالا قانون پہلی بار 2016ء میں لایا گیا تھا‘ کیا ہم پارلیمنٹ کو ریگولیٹ کر سکتے ہیں؟ کیا ہم عدلیہ کو ریگولیٹ کر سکتے ہیں؟ کیا ہم دوسرے اداروں کو ریگولیٹ کر سکتے ہیں؟ ہم صرف اپنے ادارے کو ریگولیٹ کر سکتے ہیں لہٰذا ہمارے ادارے میں ریگولیٹ کرنے کے نام پر جو پابندی لگائی جا رہی ہے وہ ناقابل قبول ہے‘ حکومت نے اس قانون پر ہم سے بات چیت نہیں کی ہے‘2 گھنٹے پہلے ہم سے رابطہ کیاتھا۔ نگہت داد کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ میں جن چیزوں پر اعتراض کیا گیا تھا اب ان میں مزید اضافہ کیا گیا ہے‘ تفتیشی اداروں کا کردار بڑھا دیا گیا ہے، جوائنٹ انکوائریز کی اجازت دے دی گئی ہے‘ پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق عالمی اداروں کے معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں، اس کی موجودگی میں شخصی آزادی پر قدغن کیسے لگائی جاسکتی ہے‘ کس طرح سوشل میڈیا کو بند کیا جاسکتا ہے‘ فیک نیوز یا پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے حکومت نے کس اسٹیک ہولڈر سے بات کی؟ کس صحافی کو اعتماد میں لیا؟ ایسی قانون سازی کسی بھی صورت قبول نہیں کی جا سکتی۔