فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (آخری حصہ)

159

جب دین کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق جہاد کیا جاتا ہے، تو اللہ کی مدد سے حق کے پیرو کاروں کے لیے ایسی راہیں کھلتی ہیں جو باطل قوتوں کی کئی دہائیوں کی محنت کو ختم کر دیتی ہیں۔ قرآن کی یہ آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے: یعنی ’’جو چیز بے فائدہ ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے، اور جو لوگوں کے لیے مفید ہو وہ زمین پر باقی رہتا ہے‘‘۔

ان عظیم جانبازوں کی قربانیوں کو دل سے سراہا جانا چاہیے جنہوں نے ایک چھوٹے سے علاقے میں، سخت ترین حالات اور دشمن کی بے پناہ ظلم و درندگی کے باوجود، اسلامی تعلیمات کو ہر لمحے مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ان کی جرأت، عزم اور ثابت قدمی بے مثال ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنے ایمان اور اصولوں پر قائم رہے۔ یہ قربانیاں اور حوصلہ تاریخ میں ایک سنہری باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ غزہ کے مجاہدین نے سیدنا محمدؐ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے حسن سلوک کے واقعات کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلام میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی جو تعلیم دی گئی ہے، وہ غزہ میں نہ صرف عملی طور پر دکھائی دی بلکہ اس کے اثرات نے دنیا کو اسلام کی عظمت اور انسانیت کے اصولوں کی حقیقت سے روشناس کرایا۔

سیدنا محمدؐ نے ہمیشہ قیدیوں کے ساتھ نرمی، عدل اور رحمت کا سلوک کیا۔ جنگی قیدیوں کو نہ صرف اذیت سے بچایا بلکہ انہیں بہترین رہائش، کھانا اور تحفّظ فراہم کیا۔ یہ سنّتِ رسول اور صحابہ کرام کا طرز عمل تھا، جسے غزہ کے مجاہدین نے آج کے دور میں بہترین طریقے سے اپنایا۔ ان کے اس سلوک نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت کے اصولوں کے مطابق حسن سلوک کرنا ضروری ہے اور یہ دین کی روح کا حصّہ ہے۔ غزہ کے مجاہدین نے اپنی قربانیوں کے دوران بھی اس بات کو ثابت کیا کہ اسلام کی حقیقت صرف جنگ میں نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت اور عدل کے راستے پر چلنے میں ہے۔ یہ ایک عظیم مثال ہے جو اسلام کے عالمی پیغام کو اجاگر کرتی ہے۔

دین اسلام کی حقیقی خوبصورتی اس کے اصولوں اور اخلاقی تعلیمات میں ہے، خاص طور پر قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک میں، جو دنیا کے کسی بھی مذہب میں اتنی جامع اور بلیغ انداز میں نہیں ملتا۔ اسلام قیدیوں کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ رحم و کرم کا بھی حکم دیتا ہے، اور یہ پیغام صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ جب اسلام کے پیارے پیروکار اپنے دشمنوں یا قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، تو یہ ان کے دلوں میں محبت اور عقیدت پیدا کرتا ہے، اور وہ اسلام کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ان شاء اللہ! یہ حسن سلوک اور انسانی ہمدردی ہزاروں نافرمان دلوں میں بھی دین اسلام کا پیغام پہنچائے گی، اور اسلام کے روشن اصول ان کے دلوں میں جگہ بنا لیں گے۔ یہ نہ صرف ایک اخلاقی فرض ہے بلکہ دین کی اصل روح کا عکس ہے جو ہمیشہ انسانیت کی فلاح کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

اسلام نے جنگ و امن کے جو اصول وضع کیے ہیں، وہ انصاف، انسانیت، اور اخلاقیات پر مبنی ہیں۔ ان کا مقصد محض فتح نہیں، بلکہ ظلم کا خاتمہ، مظلوموں کی حمایت، اور انسانی وقار کا تحفظ ہے۔ حماس نے اپنے عمل سے ایک ایسی تصویر دنیا کے سامنے رکھی جو مغربی میڈیا کے یک طرفہ بیانیے سے مختلف تھی۔ ان کی جدوجہد نے ان اصولوں کو اجاگر کیا جو عالمی سطح پر نظر انداز کیے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انصاف اور حقیقت کی ترجمانی کے لیے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔ اسلام کے اصول ہمیں ہمیشہ یہ سکھاتے ہیں کہ ہماری جنگ صرف ظلم اور ناحق کے خلاف ہے، اور یہ جنگ اخلاقیات، انصاف، اور انسانیت کے دائرے میں رہ کر لڑی جانی چاہیے۔ یہ پیغام دنیا کے سامنے پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

فلسطینی عوام اور قیادت کی قربانیاں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ حماس کی جدوجہد نے نہ صرف فلسطینی مسئلے کو زندہ رکھا بلکہ دنیا کو دکھایا کہ ظلم و جبر کے سامنے ان کا سر جھکنا ناممکن ہے۔ عرب دنیا کی بے رخی اور بین الاقوامی برادری کی دوغلی پالیسی کے باوجود، غزہ کے عوام نے اپنی قربانیوں سے اس مسئلے کو زندہ رکھا۔ حماس کی حالیہ جدوجہد نے ان قوتوں کو بھی چیلنج کیا جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن تھیں۔ یہ قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ حق کو دبایا تو جا سکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جا سکتا۔ فلسطینی عوام کا عزم اور قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے حقوق بلکہ امت مسلمہ کی غیرت اور اتحاد کے لیے بھی کھڑے ہیں۔ یہ قربانیاں آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بن کر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی۔ غزہ کے مجاہدین نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا کہ محمد مصطفی کے امتی دشمنوں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق، رحمدلی اور انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہودی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اسلام نہ صرف اپنے پیرو کاروں کو انصاف اور رحم دلی کا درس دیتا ہے بلکہ مخالفین کے ساتھ بھی بہترین برتاؤ کا حکم دیتا ہے۔ بدر، اْحد اور صلحِ حدیبیہ جیسے واقعات ہمیں رسول اللہ کی بے مثال شفقت اور کرم کی یاد دلاتے ہیں، اور غزہ کے مجاہدین نے انہی اصولوں کو زندہ کر دکھایا۔ انہوں نے اپنی جدوجہد سے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور یہ پیغام دیا کہ اسلام ہی حقیقی انسانیت اور عدل کا علمبردار ہے۔ ان کا یہ عمل ان لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے جو اسلام کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں یا اس کے پیرو کاروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قربانیاں اور اعلیٰ کردار ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اسلام ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، لیکن رحم اور انسانیت کا دامن نہیں چھوڑتا۔ شکریہ اہلِ غزہ، آپ کی جدوجہد نے دنیا کو حق اور تکریمِ انسانیت کی روشن مثال دکھائی۔