عرب و عجم کے مسلمانوں میں دوریاں: مسلم معاشرہ ہمیشہ سے گوری چمڑی کے نشانے پر رہا ہے۔ لاکھوں گورے، ہزاروں دانشور، سیکڑوں میڈیا چینل دن رات ایک ہی کام کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کو زک پہنچائی جائے۔ خاص طور پر پاکستان تو بری طرح ہٹ لسٹ پر ہے۔ یہاں کی سیاست، اقتدار، معیشت و معاشرت سب انگریزوں کی منفی اور تباہ کن پالیسیوں کے زیر اثر ہوتی ہیں۔ کہ کسی طرح کوئی ایماندار قیادت اوپر نہ آجائے۔ قانون کی بالا دستی ہونے نہ پائے، تعلیم کا میدان کھلا نہ چھوڑا جائے، انصاف کی فراوانی نہ ہوجائے، کہیں قوم کی صحت مند پالیسی نہ مرتب ہوجائے، کہیں ترقی کا پہیہ نہ گھوم جائے الغرض کوئی بھی میدان کھلا نہیں چھوڑا گیا۔ ہمارا وقار عالمی سطح پر بحال نہ ہو جائے۔ اس بارے میں قریباً دو دہائیوں سے لکھ رہا ہوں جن میں یہ نکتہ بھی متعدد بار اٹھا چکا ہوں کہ کیا بات ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد عرب اور عجم کے مسلمانوں میں دوریاں اور اجنبیت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے یہ پالیسی آج بھی مخفی یا اعلانیہ جاری ہے مگر مسلم دنیا کے رہنماؤں اور اکابرین کو اس طرف توجہ دینے کی توفیق نہیں ہے۔
اہل غزہ، ’’الخدمت‘‘ سے خوب واقف ہوگئے۔ لہٰذاغزہ میں الخدمت کا مستقل سیٹ اپ قائم کردیں تو بہتر ہے۔ اس طرح اہل غزہ فلسطین اور پورے خطے سے پاکستان کے دینی سماجی معاشی اور معاشرتی تعلقات میں ناقابل یقین اضافہ ہوگا۔ سب سے بڑھ کر جب فلسطین، شام، اردن سے پاکستان کے عملی سماجی روابط میں اضافہ ہوگا تو دنیا میں اسلامی تہذیب و تمدن کے ساتھ اسلامی معاشرے کا مظہر ثابت ہوگا۔ ڈیڑھ صدی قبل کے عرب و عجم کے مسلمانوں کا ٹوٹا ہوا معاشرتی رابطہ بحال ہوگا۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ عالمی سطح کا امت کا مسئلہ ہے، اگر مسلم حکمران اس کو مغرب کی خوشنودی کے لیے پس پشت ڈال رہے ہیں تو جماعت اسلامی، اخوان المسلمون، حماس اور اسلامی دنیا کی دیگر دینی تحریکیں اس ضمن میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔
آج پھر وہی بحثیں چھیڑی جارہی ہیں جن کا ترویج ِ اسلام اور دفاعِ اسلام بلکہ امت کی بقاء سے کوئی تعلق نہیں۔ جس طرح آج ہم کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ جب انگریز ہاورڈ اور آکسفورڈ جیسی درس گاہیں قائم کر رہا تھا تو مسلمان فضول کی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے۔ اب پھر وہی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ میں اسلامی محقق نہیں، یہ کام اسکالرز کا ہے۔ ان باتوں میں الجھنا امت کے مزید تقسیم در تقسیم کا باعث بن سکتا ہے۔ پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسلیں ہماری تاریخ سے یہ اخذ کریں کہ جب یہود و نصاریٰ نے قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ بیت المقدس پر یلغار کی تھی تو مسلمان اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ عمر بن عبد العزیز نے کتنی احادیث جمع کی تھیں۔ بھائی یہ بھی کوئی دین کی خدمت ہے تحقیق کرنی ہے تو اس بات پر کریں کہ سندھ باسیوں کا خانوادہ رسول بنو ہاشم خدیجۃ الکبریٰ سے رشتہ داریاں۔ صحابہ کرام کے وفود خود نبی کریمؐ نے سندھ واسیوں کو دین اسلام سکھانے کے لیے روانہ کیے تھے۔ سیدہ خدیجہ کے بحری جہاز سامان تجارت لیکر سندھ آتے تھے یہاں کے لوگوں کو خانوادہ رسول اور بنو ہاشم کے قصے سناتے تھے۔ یعنی سندھ اور مکہ و مدینہ یک جان دو قلب۔ اتنے عظیم تعلقات کو کس نے گمنامی کی اتھا گہرائیوں میں پھینک کر اس کا نام و نشان ہی مٹا ڈالا۔یہ ہے تحقیق کرنے کا موضوع۔
اپنی مادری زبان بولنے سے روئے زمین کی واحد پاکستانی قوم، جو شرماتی ہے۔ صدیوں سے غلام ہیں تبھی تو اپنی زبان بولنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ انگریز کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ حکمراں طبقے کو مراعات لالچ دھونس دھمکی سے پہلے اپنا غلام بناتا ہے پھر ظاہر ہے حکمراں طبقے کے اثرات عوام تک جاتے ہیں۔ اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی حکمراں طبقہ ہے ورنہ پچیس کروڑ انسان چاہتے ہیں کہ کل کی نافذ ہوتی اردو ابھی نافذ ہو جائے۔ اگر کسی قوم کو علم، آگہی شعور کے ساتھ تعلیم دینا مقصود ہو تو اس قوم کو لازماً اس کی مادری زبان میں تعلیم دو اور یہ امر قرآن کریم میں بھی بیان ہوا ہے سورہ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ’’ہم نے جس قوم میں بھی نبی یا رسول بھیجے وہ اس قوم کو اسی زبان میں تعلیم دیتے تاکہ بات کو کھول کو بیان کر سکیں‘‘۔ یہ حقیقت دنیا کے ساڑھے آٹھ ارب انسان بآسانی سمجھ سکتے ہیں مگر پاکستان کے حکمرانوں کی کھوپڑی میں نہیں سما سکتی، کیونکہ یہ گوری چمڑی کے نسلاً غلام ہیں اور آقا کی منشاء اور مرضی کے خلاف ایک انچ بھی نہیں ہل سکتے۔
الحمدللہ ماشاء اللہ اللہ ربّ العزت نے یہ خوشی اور تہنیت کا دن بھی دکھایا۔ جب عزت فلسطین اور غزہ کے مجاہدین اور حماس کے شیروں کے حصے میں آئی اور ذلت اسرائیل، نیتن یاہو، یہودیوں اور قادیانیوں کے حصے میں آئی۔ اس فتح نے اسرائیل، امریکا، برطانیہ کا غرور خاک میں ملادیا۔ 1967 کی جنگ میں کامیابی آج ستاون سال بعد خاک ہوگئی اسرائیل کی مٹی پلید ہو گئی۔ ہمارے ملک میں درون خانہ بعض حلقوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ جشن صرف جماعت اسلامی منا رہی ہے۔ سیکولر اور لبرلز کے علاوہ نام نہاد مذہبی رہنما بھی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ سرخ رو صرف وہ ہوئے جنہوں نے جنگ میں عملی طور پر حصہ لیا اور جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں اپنوں کا ساتھ دیا۔ الخدمت کی خدمت کو ساری دنیا نے دیکھا اور سراہا۔
آئی ایم ایف کی نا مناسب شرائط: میں کافی عرصہ سے اس بات پر زور دیتا آرہا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے حکمراں آئی ایم ایف سے شکایت کیوں نہیں کرتے کہ تم ہمیشہ مہنگائی بڑھانے ٹیکس میں اضافہ کرنے سبسیڈیز ختم کرنے پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے احکامات جاری کرتے رہتے ہو لیکن کبھی تم نے یہ نہیں کہا کہ اپنی برآمدات بڑھاؤ، اپنی انڈسٹری کا پہیہ چلاؤ، صنعتوں کو بجلی، گیس، پانی، ڈیزل سستا فراہم کرو، ٹیکسوں میں چھوٹ دو صنعتیں لگانے میں سرمایہ دار کی حوصلہ افزائی کرو کم از کم گھریلو صنعتوں اور کارٹیج انڈسٹری کے فروغ کے ہی اقدامات کرو۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرو ان کی معاشی اور مالی پریشانیاں دور کرنے کے اقدامات کرو تاکہ وہ اپنی پیداوار صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر سکیں۔ اپنی ائرلائین کو اسی سطح پر لائو جہاں چالیس سال پہلے تھی۔ اداروں سے کرپشن ختم کرو تاکہ صنعتی یونٹس بند ہونے کے بجائے مزید کھولے جائیں۔ تعلیم کا حلیہ بگاڑا ہوا ہے صحت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے پاکستان میں۔ عدالتوں سے انصاف یقینی بناؤ۔ ایسا کچھ نہیں کہتا آئی ایم ایف اس کا صرف ایک مطالبہ ہے مہنگائی بڑھاؤ، مہنگائی بڑھاؤ، مہنگائی بڑھاؤ تاکہ مرد اپنی غیرت اور عورت اپنی آبرو بیچنے پر مجبور ہو جائے۔ آپ مارکیٹوں میں جائیں دکانداروں سے معلومات کریں ویسے بھی معاشرے میں جس طرح برائیاں پھیلتی جا رہی ہیں اس میں مہنگائی بیروزگاری کی وجوہات کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں جو آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔