خدا کا انعام اور غضب
جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو، تو عقل اور قرآن دونوں کی رْو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا بھی اس پر مہربان ہے، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پہ ’انعام‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے برعکس جہاں ایک طرف سچی خداپرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلق خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسلا دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے، سْنار اس سونے کو تپا رہا ہے تاکہ خوب نکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہو جائے۔ دنیا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اْٹھے تو پروا نہیں۔ سْنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فسّاق نوازے جائیں۔
(تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ 285، حاشیہ 50)
٭…٭…٭
اسلامی نظام کی سند
اسلامی نظام میں اللہ کا حکم اور رسول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند (authority Final) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلے میں بھی نزاع واقع ہوگا اس میں فیصلے کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہو گا اس کے سامنے سب سرِ تسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائلِ زندگی میں کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے۔
اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائلِ زندگی کے فیصلے کے لیے کتابْ اللہ و سنتِ رسولْ اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جب کہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانہ کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ شبہہ اصولِ دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کا فر مطلق آزادی کا مدعی ہے اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اْس دائرے میں آزادی سے متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اْسے دی ہے۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اْصول و قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملے میں سب سے پہلے خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف رجوع کرتا ہے، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اسی صورت میں آزادی عمل برتا ہے اور اْس کی یہ آزا دی عمل اس حجّت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملے میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادی عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے۔ (تفہیم القرآن، سورۃ النساء، حاشیہ 89)