تہران (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران کے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے سابق سکریٹری جنرل اور تہران یونیورسٹی میں بین الاقوامی علوم کی فیکلٹی کے ڈین سعید رضا آملی نے انکشاف کیا ہے کہ 2012ء سے عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کو تقریباً 12کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ انہوں نے ایرانی ٹیلی وژن پر اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ان نقصانات نے ایرانی عوام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ انہوں نے ان پابندیوں کے نتیجے میں شہریوں کو پہنچنے والے اقتصادی نقصان پر زور دیا ۔ املی نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ پابندیوں سے نایاب امراض کی ادویہ متاثر ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے لاعلاج بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اپنی تقریباً 95 فیصد ادویہ مقامی طور پر تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس شعبے میں ایک مضبوط ملک ہے ۔ اس کے باوجود پابندیاں اب بھی ان مریضوں پر منفی اثر ڈالتی ہیں جنہیں بعض ایسی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے جو پابندیوں کی وجہ سے آسانی سے دستیاب نہیں ہوتیں۔ ایران پر پابندیاں پہلے سے عائد تھیں لیکن وہ 2015 ء میں جوہری معاہدے کے تحت اٹھا لی گئی تھیں۔ 2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ کے دستبردار ہونے کے بعد امریکا نے تہران پر یک طرفہ پابندیاں عائد کر دی تھیں جو تاحال برقرار ہیں۔ ان دنوں تہران کی جانب سے نئے جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے آمادگی کے بارے میں بات ہو رہی ہے اور اسے واشنگٹن کی جانب سے جواب کا انتظار ہے ۔امریکا نے اگر دوبارہ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو نئے معاہدے میں ایران کا میزائل پروگرام اور علاقائی پالیسی جیسے معاملات مذاکرات میں زیر بحث آسکتے ہیں۔