فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (دوسرا حصہ)

374

اسرائیل نے قیدیوں کے مسئلے کو اجاگر کرنے اور فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے مختلف سیاسی حربے بھی آزمائے گئے۔ اسرائیلی حکومت اور میڈیا نے قیدیوں کو ’’معصوم شہری‘‘ اور ’’انسانی ہمدردی‘‘ کا موضوع بنا کر پیش کیا تاکہ عالمی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ بین الاقوامی نیوز چینلز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور اخبارات میں فلسطینی تنظیموں کو ’’دہشت گرد‘‘ اور اسرائیل کو ’’متاثرہ فریق‘‘ کے طور پر پیش کرنے کے لیے منظم مہم چلائی گئی۔ قیدیوں کے اہل خانہ کے جذباتی بیانات کو بار بار نشر کیا گیا تاکہ عوامی رائے کو فلسطینیوں کے خلاف بھڑکایا جا سکے۔

اسرائیل نے بڑے میڈیا ہاؤسز کے ذریعے قیدیوں کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ میڈیا کے ذریعے فلسطینی تنظیموں پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط میں نرمی کریں۔ فلسطینیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمّہ دار قرار دینے کے لیے رپورٹس اور تجزیے نشر کیے گئے۔ اسرائیل نے اپنے سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے مختلف ممالک، خاص طور پر امریکا اور یورپی یونین، سے فلسطینی تنظیموں پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت حاصل کی۔ عالمی برادری کو قائل کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا کہ قیدیوں کا مسئلہ نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر قیدیوں کے معاملے کو اٹھا کر فلسطینی مزاحمت کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ مہمات اور ویڈیوز کے ذریعے قیدیوں کے مسئلے کو جذباتی انداز میں پیش کیا۔ فلسطینی مزاحمت کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر غلط معلومات اور مبالغہ آرائی پر مبنی مواد پھیلایا گیا۔ میڈیا اور سیاسی دباؤ کے ذریعے اسرائیل نے فلسطینی تنظیموں کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی، لیکن فلسطینی عوام کی ثابت قدمی اور مزاحمتی تنظیموں کی دانشمندانہ حکمت عملی نے اسرائیلی پروپیگنڈے کو مکمل کامیابی حاصل کرنے سے روک دیا۔ اس کے برعکس، دنیا کے کئی حصوں میں اسرائیل کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور فلسطینی عوام کے لیے حمایت میں اضافہ ہوا۔

اسرائیلی ایلیٹ یونٹس، خاص طور پر ’’سیرت میٹکل‘‘، جو خفیہ اور پیچیدہ کارروائیوں کے لیے مشہور ہیں، کو قیدیوں تک پہنچنے کے

لیے استعمال کیا گیا۔ یہ یونٹس اسرائیلی فوج کے سب سے ماہر اور تربیت یافتہ دستے سمجھے جاتے ہیں، اور ان کا مقصد قیدیوں کو بازیاب کروانا یا فلسطینی تنظیموں کو کمزور کرنا تھا۔ ’’سیرت میٹکل‘‘ اور دیگر خصوصی یونٹس نے غزہ کے اندر خفیہ مشنز کے ذریعے قیدیوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی اور بازیابی کی کوشش کی۔ یہ آپریشنز انتہائی راز داری سے کیے گئے اور ان میں جدید آلات، انٹیلی جنس ڈیٹا، اور خصوصی مہارت کا استعمال کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے دوران زیر زمین سرنگوں میں دراندازی اور ہدف پر حملے شامل تھے۔

ایک مشہور آپریشن میں، اسرائیلی یونٹس قیدیوں کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن آپریشن کے دوران پیدا ہونے والے خطرات یا معلومات کی کمی کے باعث قیدیوں کی موت واقع ہوئی۔ اس ’’کامیابی‘‘ کو اسرائیل نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے طور پر پیش کیا، لیکن درحقیقت یہ ان کی ناکامی تھی کہ وہ قیدیوں کو زندہ واپس لانے میں ناکام رہے۔ یہ واقعہ اسرائیلی فوجی حکمت عملی اور انٹیلی جنس کی ناکامیوں کو ظاہر کرتا ہے، جس پر خود اسرائیل کے اندر بھی تنقید کی گئی۔ شایطت 13 (اسرائیلی نیوی کی خصوصی فورسز) نے بھی سمندری راستوں کے ذریعے آپریشنز میں حصّہ لیا، جن میں غزہ کے ساحلی علاقوں کو نشانہ بنایا

گیا۔ یامام (انسداد دہشت گردی یونٹ) کو بھی چھاپے مارنے اور قیدیوں کی بازیابی کی کارروائیوں میں شامل کیا گیا۔ ان خصوصی آپریشنوں کے دوران نہتے فلسطینی شہریوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اسرائیلی یونٹس نے کسی بھی مشکوک علاقے پر بلا تفریق حملے کیے، جس کے نتیجے میں معصوم جانوں کا ضیاع ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں جنگی جرائم قرار دیا۔ خصوصی آپریشنوں میں اسرائیل نے اپنی پوری مہارت اور وسائل استعمال کیے، لیکن ان کی اکثر کارروائیاں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ قیدیوں کی موت اور عوامی نقصان نے ان آپریشنز کو متنازع بنا دیا، جس سے اسرائیل کی فوجی حکمت عملی اور انسانی حقوق کے احترام پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا۔ دوسری طرف، فلسطینی مزاحمت نے اپنی چالاکی اور ثابت قدمی سے ان خصوصی مشنز کو بھی ناکام بنا دیا۔

اسرائیل کی جانب سے اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی، عسکری مہارت، اور عالمی حمایت کے باوجود قیدیوں کی رہائی میں ناکامی نے نہ صرف اسرائیلی حکومت کی حکمت عملی پر سوالات کھڑے کیے بلکہ معاشرتی اور سیاسی سطح پر بھی گہری بحث چھیڑ دی۔ اسرائیلی عوام نے اس معاملے پر اپنی حکومت اور عسکری قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، یہ پوچھتے ہوئے کہ اتنی جدید ٹیکنالوجی، بھاری بجٹ، اور خفیہ آپریشنوں کے باوجود قیدیوں کی بازیابی کیوں ممکن نہ ہو سکی؟ اسرائیل کی جانب سے عالمی حمایت کے باوجود، فلسطینی مزاحمت کی قیادت نے اپنی شرائط منوائیں، جو اسرائیل کے لیے ایک بڑی سفارتی ناکامی سمجھی گئی۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے نہایت منظم اور خفیہ انداز میں قیدیوں کو ایسی جگہوں پر رکھا جہاں اسرائیلی انٹیلی جنس اور فوج پہنچنے میں ناکام رہی۔ ان کی جانب سے قیدیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے زیر زمین سرنگوں اور خفیہ ٹھکانوں کا استعمال حیران کن حد تک مؤثر رہا۔

دنیا حیران رہ گئی کہ صرف 14 کلومیٹر کی ننھی سی غزہ کی پٹی میں، جہاں اسرائیل نے ہر انچ کی نگرانی کی، قیدیوں کو اس قدر محفوظ رکھا گیا کہ ان پر اسرائیل کی بے پناہ عسکری اور انٹیلی جنس طاقت اثر انداز نہ ہو سکی۔ فلسطینی مزاحمت کی جانب سے زیر زمین سرنگوں کا پیچیدہ نظام نہ صرف اسرائیلی حملوں سے محفوظ رہا بلکہ قیدیوں کو چھپانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا رہا۔ غزہ کے عوام نے ناقابل یقین اتحاد کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی دباؤ یا لالچ کے باوجود اسرائیلیوں کو کوئی معلومات فراہم نہ کیں، جو ان کی قربانی اور ثابت قدمی کی عکاسی کرتا ہے۔

فلسطینی قیادت نے نہایت محتاط حکمت عملی اپنائی، قیدیوں کو محفوظ رکھا اور ان کی حالت زار کو کسی بھی حد تک خراب ہونے سے بچایا۔ اس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے مقصد کے لیے کس حد تک ذمّہ دار اور انسانی اقدار کے محافظ ہیں، باوجود اس کے کہ وہ خود مظالم اور محاصرے کا شکار تھے۔ بالآخر، اسرائیل کو اپنی ناکامی تسلیم کرنی پڑی اور فلسطینی مزاحمت کی شرائط کے مطابق مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ واقعہ نہ صرف فلسطینی مزاحمت کی فتح تھا بلکہ دنیا کے لیے ایک پیغام بھی کہ طاقت، وسائل، اور ٹیکنالوجی کے باوجود انسانی عزم، حکمت عملی، اور ثابت قدمی غالب آسکتی ہے۔ (جاری ہے)