ماحول کی خرابی میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟

315

گزشتہ دنوں جامعہ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز میں ماحولیات اور صحافت کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کا موقع ملا جسے ماہنامہ بساط اور انوائرمینٹل اسٹڈیز انسٹیٹیوٹ نے الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے تعاون سے منعقد کیا تھا، وہاں کی گئی گفتگو کا خلاصہ یہاں پیش خدمت ہے۔

ہماری عادت ہے کہ اپنے مسائل کا ذمے دار تلاش کرتے رہتے ہیں اور ہمیں مل بھی جاتا ہے لیکن اللہ نے ہمیں قرآن پاک میں بتا دیا ہے کہ معاملہ ہے کیا؟ ’’خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہوگیا ان برائیوں کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں، تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض کاموں کا مزا چکھائے تاکہ وہ باز اجائیں‘‘۔ (آیت: 41 سورہ روم)

اپنے معاملات کی خرابی کا ہم شکوہ کرتے رہتے ہیں ہر زبان پر یہ جملہ ہوتا ہے کہ ماحول خراب ہوگیا ہے، بھئی آب و ہوا راس نہیں آرہی، کوئی کہتا ہے کہ پانی آلودہ آرہا ہے، اور اس پر تو سب متفق ہیں کہ ہر چیز میں ملاوٹ ہے، گھر سے نکلیں تو نظر آتا ہے کہ کوئی سڑک ٹھیک نہیں ہے، ہر طرف دھول مٹی ہے، اور بارش ہوجائے تو کیچڑ، اور گٹر اُبلنا تو معمول ہی ہے۔ ان ساری باتوں کی وجہ سے ہم سب یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ یہ بلدیہ نالائق ہے، یہ حکومت ہی خراب ہے، لیکن یہ تو کوئی انکشاف نہیں ہے۔ ارے حکومت ٹھیک کب ہوتی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ حکومت بناتا کون ہے؟ وہ بھی تو ہم ہی بناتے ہیں یعنی۔ حکومت بھی تو ہم ہی ہیں ویسے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت تو اب عوام نہیں بناتے کوئی اور بناتا ہے، بات سیاست کی طرف چلی جائے گی، اور اگر نام لے لیا تو دماغ کی ساری آلودگی صاف کردی جائے گی اسے سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کرنا کہتے ہیں۔ اس لیے یہیں تک رہنے دیں۔

اسی طرح ماحول بھی ہم ہی اچھا اور خراب کرتے ہیں، ہم بھی دیکھتے ہیں کہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سگریٹ اچھالا، ایک ہی ٹوٹا تو تھا، چپس کھائے ریپر باہر لڑھکا دیا، ایک ہی تو تھا، بسکٹ کا ریپر پھینکا ایک ہی تو تھا، اور سوچیں ایک ایک کرکے 25 کروڑ کا ایک فی صد 25 لاکھ لوگ ایک ایک چیز سے اپنا حصہ ڈال رہے ہوں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ ہماری صفائی پسندی کا عالم یہ ہے کہ ہم دکان کھولتے ہیں تو سڑک پر کچرا پھینک دیتے ہیں، اور دکان بند کرتے ہوئے بھی سارا کچرا سڑک پر ڈال دیتے ہیں تاکہ نالائق بلدیہ اور حکومت کی نالائقی کا ثبوت مہیا کیا جاسکے۔ اب بتائیں یہ ساری نالائقی حکومت کی ہے یا بڑا حصہ ہمارا ہے۔ اور ایک ایسی چیز بھی ہے جسے ہم سپر پلوشن کہتے ہیں، اور وہ ہے، پان، گٹکا، ماوا، جی ایم، سی ٹی وغیرہ اس کی تفصیل میں نہیں جاتا سوچ کر ہی کوئی اُلٹی نہ کردے، اور اس کی تفصیل دوبارہ بتانے کی ضرورت نہیں، سڑکیں، دیواریں، عمارتوں کی لفٹ، اسکولوں اور مکانوں کی چہار دیواریاں، ان پرکاریوں کے نتیجے میں بننے والے نقش ونگار اس کے گواہ ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ تجربہ بھی ہوا ہوگا کہ بس یا ویگن سے اچانک ایک دھار نکل کر آپ کی گاڑی، موٹر سائیکل۔ چہرے یا کپڑوں پر پڑتی ہے، اور وہ لال ہوچکے ہوتے ہیں، یا تو پیک تھوکتے والا معذرت کرلیتا ہے یا بھرے ہوئے منہ کی وجہ سے معذرت نہ کرسکا اور اشارے سے سوری کہہ دیا، خدارا اس سے جان چھڑائیں، ورنہ یہ بلا صحت کا بھی بیڑا غرق کرے گی اور گندگی تو پھیلا ہی رہی ہے۔

ہم اسموگ کی بات نہیں کر رہے گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج کی بات نہیں کررہے، کہ ان سب چیزوں پر ہمارا اختیار نہیں ہے ہم تو اس کے مکلف ہیں جس پر اختیار ہے۔ یہ جو سورہ روم کی آیت 41 ہے۔ وہ بتارہی ہے کہ قدرتی آفات خود نہیں آجاتیں ہم خود بلاتے ہیں اپنے ہاتھوں سے کماتے ہیں۔ جب ہم پانی کی گزر گاہوں پر بستیاں بناتے ہیں اور سیلاب کی تباہی کا شکار ہوجاتے ہیں، سبزے اور جنگلات کو کاٹ کر شہر بساتے ہیں اور لکڑی بیجتے ہیں پھر بارش کی دعائیں کرتے ہیں قدرتی پھل اور سبزی چھوڑ کر جی ایم او پر منتقل ہوتے ہیں، پیدل نہیں چلتے ورزش نہیں کرتے اور جو کرنا چاہے اس کے لیے جگہ نہیں، پارکس کی چائنا کٹنگ ہوجاتی ہے۔ تو واک کہاں کریں۔ سڑک پر تو ہماری پھینکی ہوئی تھیلی نے گٹر بند کردیا تھا تو اب وہاں گٹر کا پانی ٹہلتا ہے، یہ سب ہمارے ہاتھ کی کمائی ہے، رات دن غیر ضروری طور پر اے سی چلاتے ہیں، پنکھے اور بلب جلا کر بھول جاتے ہیں غیر ضروری طور پر گاڑی کا انجن چلائے رکھتے ہیں، اسی سے کلائمٹ چینج، گلوبل وارمنگ وغیرہ سب آتے ہیں، پھر اس میں ہمارا حصہ کتنا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

ہمارا تعلق میڈیا سے ہے ہمارا تو کام ہی آگاہی پھیلانا ہے اور میڈیا یہ کام کررہا ہے لیکن جس چیز کے پیسے ملتے ہیں اس کو پھیلاتا ہے۔ کیونکہ اب جس چیز میں پیسے ہیں اسی پر مفاد عامہ کے پیغامات جاری ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ بھی بدل جاتے ہیں پہلے کہا جاتا تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے لیکن اب کہا جاتا ہے کہ کیمرا دیکھ رہا ہے جو اللہ سے نہ ڈرے وہ کیمرے سے کیا ڈرے گا۔ تو اب کارپوریٹ میڈیا سے کسی قسم کی امید نہیں، لے دے کر آزاد میڈیا کے چھوٹے چھوٹے ادارے ہیں یا نئی نسل ہے۔ کارپوریٹ میڈیا تو ذہنی آلودگی بھی پھیلاتا ہے۔ اور موسمی آلودگی سے زیادہ نقصان دہ ذہنی آلودگی ہے، اس سے قوم اور نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے، اب کوئی یہ نعرہ نہ لگادے کہ ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘، بلکہ اس کا حل تو صرف آگہی ہے۔ لیکن اب بات بہت آگے جاچکی ہے اب کسی ادارے میں سیمینار سے اور انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل اسٹڈیز سے آگہی نہیں ملے گی، کیونکہ جو نسل ساری خرابیاں سیکھ اور پختہ کرکے میدان میں پہنچی ہے تو تعلیم اور آگہی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اس کا حل یہ ہے کہ جو نسل اب میٹرک کر چکی اسے جو بننا تھا بن چکی۔ اب نئی نسل کی دو سال کی عمر سے عادتیں بنائی جائیں۔

یہ ہے مشکل کام، کیونکہ پہلے خود ٹھیک ہونا پڑے گا، جو چاہتا ہے مستقبل آلودگی سے پاک ہوجائے اسے محنت کرنی پڑے گی، لیکن اگر ایک نسل پر محنت کرلی تو کئی نسلیں چین سے رہیں گی، یہ سوچیں کہ ہم نسلوں کے لیے دولت کماتے ہیں، یہ بھی ہماری کمائی ہے جو آج بوئیں گے وہی کل کاٹا جائے گا۔ تو سوچیں اگلی نسل کوکیا دے کر جارہے ہیں۔ ان سب چیزوں پر بات کرتے ہوئے ہمارے بڑے امریکا یورپ کی بات کرتے ہیں، توچلیں وہاں کی بات کرتے ہیں مغرب میں اتنے کتے ہیں اتنے کتے ہیں کہ ہم اپنے شہر کے آوارہ کتوں سے بھی موازنہ نہیں کرسکتے، ہر کتا کسی کے ہاتھ میں بندھی رسی سے مالک کو گھسیٹ رہا ہوتا ہے۔ سڑک، بازار، پارک، شاپنگ مال ہر جگہ کتے ہی کتے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کتے کا فضلہ پارک یا گھاس، سڑک یا کہیں راستے میں پڑا ہو، سب تھیلیاں اور دستانے ساتھ رکھتے ہیں، اور کہیں غلاظت نہیں ہوتی، تو پھر ہم تو مسلمان ہیں ہمارا تو نصف ایمان ہی صفائی اور پاکیزگی ہے، اور باقی نصف ایمانداری سے معاملات چلانا ہے، لیکن خرابی یہ ہے کہ ہم ذہنی مرعوبیت کی اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ ذہن آلودہ ہوگئے ہیں، کہیں ترقی یافتہ قوموں کی ذہنی غلامی، کہیں مرعوبیت اس سے ذہنی آلودگی پیدا ہوتی ہے اس ذہنی آلودگی سے نجات بھی بہت ضروری ہے جس دن یہ نجات مل گئی ساری آلودگی ختم ہو جائے گی۔