مذاکرات کا خاتمہ

103

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان بداعتمادی کے ماحول میں مذاکرات اور مفاہمت کے امکانات پہلے ہی محدود تھے۔ کیونکہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے جو سنجیدہ کوشش حکومتی سطح پر درکار تھی یا جو حکومت نے کامیابی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے تھے اس کا فقدان بھی ہمیں غالب نظر آیا۔ پی ٹی آئی کو بھی اس بات کا اندازہ تھا کہ کمزور سی حکومتی کمیٹی خود بھی بہت سے معاملات پر بے بس بھی ہے اور مذاکرات کا نتیجہ بھی کامیاب نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کے بقول حکومت عدالتی کمیشن بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ مذاکرات کے نام پر تاخیری حربے اختیار کر کے وقت کو ٹالا جا رہا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اسپیکر قومی اسمبلی کا موقف ہے کہ وہ اب بھی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے درمیان مفاہمت چاہتے ہیں اور ان کے دروازے اب بھی پی ٹی آئی کے لیے کھلے ہیں۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ مذاکرات کا اصل مرکز پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہے اور پی ٹی آئی کے ساتھ جو بھی بات چیت ہوگی اس میں اصل کردار اسٹیبلشمنٹ ہی کا ہوگا۔ ایسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خود بھی کوئی درمیانی راستہ نکل آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے یا اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کر رہی ہے۔ البتہ اسپیکر نے کمیٹی کو برقرار رکھا ہوا ہے اور ان کے بقول مذاکرات کا آپشن اب بھی پی ٹی آئی کے پاس موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کے مذاکرات ہی واحد آپشن ہے اور مذاکرات کے نتیجے میں ہی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت ہو سکتی ہے۔ لیکن مفاہمت کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کھلے ذہن کا مظاہرہ کریں مگر ہمیں ایسا طرز عمل حکومتی جانب سے دیکھنے کو نہیں مل رہا اور لگتا ہے کہ حکومت مذاکرات کے نام پر ایک سیاسی ایجنڈے کی تکمیل چاہتی ہے جس میں پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانا مقصود ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان آٹھ فروری کے انتخابات ہوں یا نو مئی کے واقعات کی عدالتی تحقیقات یا 27 نومبر کی عدالتی تحقیقات یا 26 ویں ترمیم کا خاتمہ یا سیاسی قیدیوں کی رہائی ان تمام معاملات پر پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان بہت سے تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں اور اسی بنیاد پر ڈیڈلاک بھی موجود ہے۔ اسی طریقے سے پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی عملاً پابندیاں ہیں اور ان کے خلاف ریاستی یا حکومتی جبر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پی ٹی آئی کی اصل طاقت عمران خان ہے اور ان کے لب و لہجے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کافی سخت رد عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے عمران خان کے لہجے میں بھی تلخی کم دیکھنے کو مل رہی ہے اور ان کے جماعت کے بعض لوگوں نے ان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زیادہ سخت زبان استعمال نہ کریں۔ وگرنہ دوسری صورت میں پس پردہ ہونے والی بات چیت متاثر ہو سکتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ حکومت فوری طور پر کیوں کر پی ٹی آئی کے مطالبے پر عدالتی کمیشن بنائے کیونکہ عدالتی کمیشن بنانے سے حکومتی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کا براہ راست فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔ اس لیے حکومت کی کوشش ہے کہ عدالتی کمیشن اوّل تو بنے نہ اور اگر بنانا پڑے تو یہ اتنا ہلکا کمیشن ہو کہ کمیشن کچھ بھی نہ کر سکے۔ پی ٹی آئی اب حکومت سے مذاکرات کرنے کے بجائے ایک گرینڈ سیاسی الائنس بنانا چاہتی ہے جس میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بقول ان کی کوشش ہوگی کہ وہ گرینڈ الائنس کی مدد کے ساتھ حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھائیں اور اس بنیاد پر اپنی حکمت عملی کو وضع کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بیک چینل مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ لیکن کیا یہ بیک چینل مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔ اس کا انحصار مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی لچک کے درمیان ہوگا۔ کیونکہ مذاکرات کی کامیابی میں سیاسی ڈکٹیشن کا جادو نہیں چل سکے گا بلکہ اس کے لیے ایک دوسرے کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنی پڑے گی۔ حکومت کی مشکل یہ بھی ہے وہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ جو بات چیت چل رہی ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ نے اسے مکمل طور پر اعتماد میں نہیں لیا بلکہ پس پردہ بہت سی باتوں کو ان سے چھپایا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پس پردہ بہت سے معاملات طے ہوتے ہیں تو پھر حکومتی سطح پر بننے والی کمیٹی میں پی ٹی آئی دوبارہ مذاکرات کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس طرح سے جو کچھ بھی طے ہوگا اسے سیاسی کور دیا جائے گا یا حکومتی آشیر باد حاصل ہوگی۔ ایک بات طے ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت ہی واحد راستہ ہے اور اس آپشن کو اختیار کیے بغیر ملک کی داخلی علاقائی اور عالمی سیاست میں کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب مذاکرات کے ایجنڈے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ عالمی سیاست کے کھلاڑی بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مفاہمت کی سیاست ہو اور پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ اب دینا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں بھی ماضی کے مقابلے میں اب سختی پی ٹی آئی کے لیے کم ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہوگی کہ جو بھی مفاہمت ہو اس میں اس کا وزن زیادہ ہونا چاہیے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی کوشش ہوگی کہ وہ اس تاثر کو قائم کرے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں کی بلکہ یہ ایک سیاسی جنگ تھی اور اس سیاسی جنگ میں پی ٹی آئی نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ جو بھی مفاہمت ہو اس میں حکومت کا کوئی زیادہ نقصان نہ ہو اور حکومت کو بھی اس مفاہمت کے نام پر ایک محفوظ سیاسی راستہ دیا جائے۔ اس لیے مفاہمت اور مذاکرات کے کھیل وقفے وقفے سے جاری رہے گا اس میں اُتار چڑھاؤ آئے گا۔ لیکن یہ کھیل اسی تانے بانے کے ساتھ سجایا جاتا رہے گا۔ وقتی طور پر وہ لوگ کامیاب نظر آرہے ہیں جو چاہتے تھے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا عمل سبوتاژ ہو مگر مگر اس ناکامی کے بعد پھر مذاکراتی عمل اگر جاری ہوتا ہے تو اس میں کچھ مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی مشکل یہ ہے کہ اب اس کے پاس عوامی مزاحمت کے آپشنز کم ہیں اور اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ بہت زیادہ تعداد میں لوگوں کو باہر نہیں نکال سکیں گے۔ البتہ وہ اپنی مقبولیت کو بنیاد بنا کر اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر بہتر مفاہمت کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے اسے سیاسی حکمت عملی درکار ہے اور یہ کام جذباتیت کی سیاست سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس میں ٹھیرائو پیدا کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔