پڑھو گے، لکھوگے، بنو گے نواب۔۔ لیکن کیسے؟

256

غریب اور متوسط طبقے کے مسائل پہلے ہی کیا کم تھے کہ رہی، سہی کسر ہمارے الجھے (Confused) تعلیمی نظام نے، بالخصوص والدین کو نفسیاتی اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا کرکے پوری کردی، کیسے…؟ وہ ایسے کہ ’’بچوں کا داخلہ کہاں کروائیں، کہاں نہیں‘‘ آج کل کے پریشان ترین مسئلوں میں سے ایک ہے، کافی دوڑ دھوپ اور چھان پھٹک کے بعد حاصل ہونے والی ناکامی بالآخر، گھر سے قریب والے اسکول کے حق میں فیصلہ کروا ہی لیتی ہے۔ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی اسکولوں میں داخلوں کا آغاز بھی بس اب ہوا ہی چاہتا ہے۔ اب ہمارے یہاں کے اسکولوں کی درجہ بندی (Categories) سے تو آپ سب لوگ اچھی طرح واقف ہی ہیں، کچھ تو ایسے ہیں کہ جہاں غریب والدین کے لیے اپنے بچوں کا داخلہ بس ایک خواب ہی ہے، بھئی یہ خواب ہی تو کہلائے گا کہ بالفرض ایک ایسا شخص جس کی تنخواہ 30 یا 40 ہزار روپے ماہوار ہو تو پھر اُس کے لیے 15 سے 20 ہزار کے درمیان ہر ماہ ادا ہوتی شاندار اسکولوں کی فیس کا بوجھ اُٹھانا کیونکر ممکن ہوسکے گا!! اور اگر والد ِ محترم خالصتاً مزدوروں والی کمائی کما رہے ہوں تو پھر تو اُن کے کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کا داخلہ ’’پیلے‘‘ کا لیبل چپکائے کسی سرکاری اسکول میں چُپ چاپ کروا آئیں۔ غریب والدین چاہتے تو ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اور معیاری اسکولوں میں تعلیم دلائیں، لیکن بیچارے بس ایک ٹھنڈی ’’آہ‘‘ بھر کر ہی رہ جاتے ہیں، اپنے جگر گوشوں کی بہتر تعلیم کے لیے دیکھے جانے والے خوابوں کو چکنا چُور ہوتا دیکھ کر ایک حسرت، ایک کسک سی والدین کے دلوں میں رہ جاتی ہے، پھر وہ حسرت کب نفرت میں بدل جاتی ہے، پتا ہی نہیں چلتا، بے بسی حوصلوں کی پستی کا سبب بنتی ہے، کمتر ہونے کا احساس، اچھی خاصی شخصیت کو بگاڑ دینے کا موجب بن سکتا ہے۔ مایوسی اور پچھتاوا انسان کو اضطراب کی سی کیفیت میں مبتلا کیے رکھتا ہے۔ بچوں کے بہتر مسقبل کی فکر چین سے سونے نہیں دیتی۔ ہر پل ذہنو ں میں اُبھرتے، بچو ں کی قابلیت پر بحث و تکرار کرتے سوالات دماغی توازن پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، اور پھر غائب دماغی بنتے کام بھی بگاڑ دیتی ہے۔

نفسیاتی الجھنوں کی وضاحت کے بعد اب بات ہوجائے درمیانے درجے پر فائز اسکولوں کی، یہ اسکول کافی تعداد میں موجود ہوتے ہیں، ان کی فیس اگر چہ کہ بہت کم نہیں، تو بہت زیادہ بھی نہیں ہوتی ہے، لیکن داخلے کے لیے دل، وہاں بھی نہیں مانتا۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایسے اسکول بظاہر دیکھنے میں تو صاف ستھرے، سرسبز وشاداب، کشادہ اور آرام دہ معلوم ہوتے ہیں، لیکن جب تعلیمی معیار کے حوالے سے ان کا جائزہ لیا جائے تو نتائج مایوس کُن ہی نکلتے ہیں، چند بڑی وجوہات میں سے ایک، کم تنخواہوں پر اساتذہ کی بھرتیاں ہیں، قابل ٹیچرز کی دستیابی تنخواہوں کی مد میں مختص کیے گئے مختصر ترین بجٹ سے بھلا کیونکر ممکن ہوسکے گی!! پھر تنخواہوں ہی کے چکر میں ٹیچرز کی ایک اسکول سے دوسرے اسکول میں تواتر سے ہوتی Switching بھی ’’تسلسل‘‘ سے جڑ ے معیار کو نقصان پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ خیر، پھر جنابِ عالی باری آتی ہے گلی، محلوں، بلڈنگوں اور کالونیوں میں کُھلے اسکولوں کی۔ یہ اسکول جیسے بھی ہوں اُن والدین کے لیے تو راحت کا سامان کیے رکھتے ہیں کہ جن کے لیے فاصلے اور دُوریوں پر حاصل ہوتی تعلیم (آج کل کے حالات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے) غیر محفوظ اور جیب پر ایک بھاری بھرکم بوجھ تصور کی جاتی ہے۔

ہر بڑے شہر میں چار، چھے اسکول ایسے بھی ہوتے ہیں جو والدین کی مطلوبہ ضروریات پر پورا اترتے نظر آتے ہیں۔ لیکن وہاں مسئلہ سیٹ کا آجاتا ہے‘ ایسے اسکول ہوتے ہی گنتی کے ہیں کس، کس کو اپنے اندر سموئیں گے!! جب بھی کہیں ان اسکولوں کا ذکر آتا ہے تو مجھے آذر اور زینا یاد آجاتے ہیں۔ دونوں میرے اچھے دوست ہیں اور آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں، جن دنوں کراچی میں تھے تو اپنی بیٹی کے داخلے کے لیے بہت پریشان تھے، آذر کی والدہ پرانے خیالات کی حامل بہت جہاندیدہ خاتون تھیں۔ چھوٹی تو نہیں البتہ بڑی کلاسوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے کافی ’’قصے‘‘ سن اور دیکھ رکھے تھے۔ کہتی تھیں کہ پوتی کو کسی صورت مخلوط تعلیمی اسکول میں نہیں پڑھوانا۔ بیٹی کے داخلے کے لیے میں نے بالخصوص آذر کو بہت پریشان اور فکر مند دیکھا تھا، ماں، باپ پرائیویٹ اسکول میں تعلیم دلانے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لیے آذر نے ایک سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ تعلیمی دور میں A سےApple اور B سے Ball کافی سال بعد اس وقت

نظروں کے سامنے آئے تھے کہ جب چڑیا (تقریباً) سارا ہی کھیت چُگ چُکی تھی۔ کمپیوٹرکا نام ونشان تو خیر سے پورے تعلیمی کیرئر میں کہیں تھا ہی نہیں، آذر کے اسکول میں دی جانے والی تعلیم کیونکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور مطلوبہ عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتی تھی اسی لیے زندگی کے ہر موڑ پر، کہیں نہ کہیں اس کے اثرات کا سامنا رہا، خاص طور سے جدید تقاضوں اور عالمی معیار کے حامل، نئے دور کے پیشہ ورانہ ماحول میں سنبھل سنبھل کر اپنی جگہ بناتے کافی وقت لگ گیا تھا اُسے۔ یہی وجہ تھی کہ آذر، اور زینا کو بھی، تلاش ایک ایسے اسکول کی تھی کہ جہاں فیس کم ہو، مخلوط تعلیمی نظام کا حامل نہ ہو، نامور ہو اور سب سے بڑھ کر، جہاں انگریزی بھی فر، فر بولی جاتی ہو۔ کافی تلاش کیا پھر ان کی نظروں کو پورے شہر میں ’’دو‘‘ اسکول ہی ایسے دکھے جو ان کی خواہشات اور ضروریات پر پورا اُتر رہے تھے۔ آذر وہاں سے ر جسٹریشن فارم لے آیا تھا، خوب زورو شور سے تیاریاں جاری تھیں، دونوں نے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی، ٹیسٹ کی تیاری کے لیے بیٹی نے ایک بہت ہی عمدہ سینٹر میں جانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن پھر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا، کچھ عرصے بعد ہی وہ لوگ ملک چھوڑ چکے تھے، بچے اب کینیڈا کے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، بہت خوش اور مطمئن ہیں۔ اسکولوں کا احوال تو کافی حد تک آپ لوگوں نے جان لیا اب مسئلہ مسائل کے حل کی تلاش ہے۔ ہونا کیا چاہیے؟ سب سے پہلے تو تعلیمی اداروں پر لگا کرپشن کا بدنما داغ دھلنا چاہیے، تاکہ بدعنوانیوں کی فہرست میں سرفہرست دکھنے والا یہ مقدس پیشہ اُس خراب جگہ سے ہٹ کر اپنا معتبر مقام حاصل کرسکے، پھر اُس کے بعد زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا تو اربابِ اختیار صرف اتنی مہربانی ہی کر دیں کہ موجودہ منظر نامے کو پلٹا دیں، یعنی سرکاری اسکول ایسے بنا دیے جائیں کہ پھر وہاں والدین کی طویل قطاریں لگی نظر آئیں، ہر شخص حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اسکولوں میں داخلے کا خواہش مند ہو، وہاں نشستوں کا مسئلہ درپیش آئے تو پھر والدین ( بہ حالتِ مجبوری) نجی اسکولوں کا رُخ کریں، بس اتنا کر لیں پھر اثر دیکھیں، فوائد شرطیہ اورگارنٹڈ ہوں گے۔