قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ

118

جب اْن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ’’اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو‘‘ جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ’’ہمارے گھر خطرے میں ہیں،‘‘ حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے، دراصل وہ (محاذ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے۔ اگر شہر کے اطراف سے دشمن گھس آئے ہوتے اور اْس وقت انہیں فتنے کی طرف دعوت دی جاتی تو یہ اس میں جا پڑتے اور مشکل ہی سے انہیں شریک فتنہ ہونے میں کوئی تامل ہوتا۔ (سورۃ الاحزاب:13تا14)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہؐ نے بڑے گناہوں کا تذکرہ فرمایا (یا آپ سے بڑے گناہوں کے بارے میں سوال کیا گیا) تو آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، کسی کو ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا‘‘۔ ( پھر ) آپ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟‘‘ فرمایا: ’’جھوٹ بولنا (یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا)‘‘ شعبہ کا قول ہے: میرا ظن غالب یہ ہے کہ وہ ’’جھوٹی گواہی‘‘ ہے۔ (صحیح مسلم)