مجھے تو اب معلوم ہوا

172

ایک کہانی ہے‘ یہ سچی ہے یا نہیں‘ بہر حال ضرور آپ نے بھی سنی ہوگی‘ ایک بڑھیا تھی اس نے سرکار سے امداد حاصل کرنے کی خاطر ایک درخواست لکھوائی‘ درخواست لکھنے والا شخص اتفاق سے ادیب‘ شاعر‘ کسی صحافی اور لکھاری جیسا ہی تھا‘ اس نے بڑھیا کی درخواست میں اس کی غربت‘ بے چارگی کا ایسا نقشہ کھینچا کہ کمال کردیا‘ اور درخواست لکھ کر بڑھیا کو سنائی‘ لکھی ہوئی درخواست کا متن سن کر بڑھیا بولی‘ مجھے توآج پتا چلا کہ میں کتنی غریب اور مستحق خاتون ہوں‘ جناب ! ہمارے ہاں بھی بہت سے لکھاری‘ ادیب اور شاعرانہ طرز تحریر رکھنے و الے بہت سے لوگ موجود ہیں وہ جن کی تعریف میں لکھتے ہیں انہیں تو تب پتا چلتا ہے کہ وہ معاشرے کے لیے کس قدر اہمیت کے حامل اور ناگزیر انسان ہیں‘ اس انتہا پسندی کو ہمارے دین نے منع کر رکھا ہے‘ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نصیحت کرتے ہیں کہ میں نے قبیلے بنائے صرف پہچان کے لیے‘ اور صرف اہل تقویٰ ہی اللہ کی نظر میں با وزن لوگ ہیں‘ انہی کی اہمیت ہے‘ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ صرف اور صرف اللہ کے خوف کا نام ہے‘ ہمارے دین اور ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہمیں تعصب کے بارے میں بڑی واضح اور کھلی شفاف قیمتی رہنمائی دی کہ تعصب یہ ہے کہ کوئی ہر قیمت پر‘ چاہے وہ شخص ظالم ہی کیوں نہ ہو‘ کوئی انسان اس کی صرف اس لیے حمایت کرے کہ اس کا تعلق اس کے قبیلے سے ہے‘ ہمیشہ لکھتے ہوئے‘ بولتے ہوئے یہ نکتہ ہی نظر میں رہنا چاہیے‘ جب گواہی دینے کا موقع آئے تو جو بُرا ہے چاہے وہ اپنے ہی قبیلے سے کیوں نہ تعلق رکھنے والا ہو‘ اسے بُرا ہی کہا جائے‘ اور جو اچھا ہے چاہے اس کا تعلق مخالف قبیلے سے ہی کیوں نہ ہو‘ اسے اچھا ہی کہا جائے‘ ہر پڑھا لکھا شخص یہ جانتا ہے کہ اس وقت ملک میں معاشرے کی تقسیم بہت گہری ہوتی چلی جارہی ہے‘ جب بھی معاشروں میں ایسی تقسیم ہو تب ادیبوں‘ اور تعلیم یافتہ افراد کی ذمہ دار ی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ معاشرے کو درست نہج پر لے جائیں‘ منقسم معاشرے میں سدھار کے نام پر انتہا پسندی کی روشنائی سے لکھی ہوئی تحریر کبھی بھی معتدل بلکہ معتبر نہیں قرار دی جاسکتی، معتبر تحریر وہی ہوتی ہے جس کے حوالے بھی مستند ہوں اور حقائق کی میزان پر پورا اترتے ہوں‘ ابھی حال ہی میں‘ دو ماہ قبل‘ اسلام آباد میں ایک سیاسی جماعت نے ہلہ بولا‘ مطالبہ تھا کہ خان کو رہا کرو‘ قانون کے دائرے

میں رہ کر احتجاج کرنا‘ اپنی بات کے حق میں رائے عامہ منظم کرنا‘ یہ حق تو ہر شہری کو ہمارا آئین بھی دیتا ہے اور ہمیں یہ سب کے لیے حق تسلیم بھی ہے‘ لیکن ہوا کیا؟ سچی بات ہے کہ ہم نے اسے اس وقت رپورٹ نہیں کیا‘ مبادہ خرابی بڑھ نہ جائے‘ اس وقت ہوا یہ تھا‘ اور بلیو ایریا کے سب لوگ اس احتجاجی فضا سے اچھی طرح واقف ہیں‘ نعرے کیا لگ رہے تھے‘ کہاں ہے پنجابی؟ سامنے آئے پنجابی‘ ایسے نعرے‘ کبھی نہیں سنے تھے‘ ہم یہ بات کبھی نہ لکھتے‘ کیونکہ یہ ملک یک جہتی مانگ رہا ہے‘ تعصب کو ہوا دینا مناسب ہی نہیں ہے بلکہ غیر قانونی عمل بھی ہے، اسے ہمارا دین بھی پسند نہیں کرتا اور ایسے نعروں کا وزن ہماری قومی یک جہتی بھی نہیں سہہ سکتی‘ اللہ نہ کرے کہ کبھی ہم کوئی ایسی بات لکھیں کہ جس سے کسی کا دل دکھے‘ یا یہ تحریر قومی یک جہتی کے منافی ہو‘ دین کی تعلیم کے خلاف ہو‘ اللہ ہمیں ایسے وقت سے بچائے رکھے‘ آمین۔ سب سے اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ جس نے بھی اچھا بول سیکھ لیا‘ گویا اس نے دوسروں کا دل جیت لیا‘ ہمیں تعصب پھیلانے کے لیے نہیں‘ دل جیت لینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے‘ قومی یک جہتی کے لیے اپنی رائے کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے‘ ہاں البتہ ہمیں بطور قوم‘ ہمارے قومی اداروں کو‘ ہماری پارلیمنٹ کو‘ قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کو‘ خود کو آئین پاکستان کے سامنے سرنگوں کرنا چاہیے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ملک میں ایسا نظام بنانا جانا چاہیے کہ عاقل اور بالغ ووٹرز کی جانب سے آئینی انتخابات میں ووٹ جس کے لیے بھی ڈالا گیا ہے یہ ووٹ اس کے حق میں ہی شمار کیا جائے اور اس کے حق میں ہی گنا جائے‘ جس نے بھی اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے یا کر رہے ہیں وہ کوئی شخص ہے یا گروہ اسے بھی اب اپنی ساری توانائی‘ طاقت‘ رعب دبدبہ‘ آئین پاکستان کے پاؤں پر رکھ دینا چاہیے‘ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اگر اس ملک میں جمہوریت ہے تو پھر جمہوریت نظر بھی آنی چاہیے‘ باالکل اسی طرح جس طرح کہا جاتا ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے‘ اگر یک جہتی ہماری قوت ہے‘ تو پھر ہمیں قبیلوں کی گروہ بندیوں کا اسیر نہیں بنے رہنا چاہیے بلکہ یک جہتی بڑھانے کے لیے اس برے فعل والے عمل سے آزاد ہونا چاہیے‘ لیکن اگر ہم اپنے پسند کے رہنماء کے لیے ایسی ایسی تحریر لکھیں گے کہ جس سے وہ کہہ اٹھے کہ مجھے تو آج پتا چلا کہ میرے اندر کیا کیا خوبیاں ہیں تو ایسی تحریر کا جس کے بھی حق میں لکھی جائے کبھی بھی فائدہ نہیں ہوگا‘ بلکہ نقصان ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔