حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکا (سانا) کے جنرل سیکرٹری اسد علی شیخ نے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کی منصفانہ تقسیم کے موجودہ فارمولے کو تبدیل کر کے سندھ کے حصے کے پانی کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں، انڈس ڈیلٹا میں ہر سال تازہ پانی کی مقررہ مقدار چھوڑنے کا منصوبہ بنایا جائے اور مقامی کمیونٹیز کو ڈیلٹا کے تحفظ میں شامل کرنے اور ان کے لیے آمدنی کے متبادل ذرائع فراہم کرنے کے لیے مالی معاونت دی جائے۔ وہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نارتھ امریکا میں رہائش پذیر سندھیوں کی آواز پہنچانے آیا ہوں، خاص طور پر سندھ میں پانی کے بحران اور چولستان میں نئے کینالز کی تعمیر کے حوالے سے جو تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں سانا نے کراچی میں اس معاملے پر کانفرنس بھی منعقد کی تھی، تاریخ گواہ ہے کہ سندھ کے ساتھ پانی کے وسائل کی تقسیم میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے ناانصافی کی جا رہی ہے اور یہ مسئلہ صرف پانی ہی کا نہیں بلکہ سندھ کے حقوق، وسائل کی تقسیم اور مستقبل کے لیے ہماری اجتماعی ذمہ داری کا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1991ء کے پانی معاہدے کے بعد سے سندھ کی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے، ہر سال ارسا اس معاہدے کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم میں ناکام رہا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ چولستان آبپاشی منصوبے کے لیے پنجاب کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار نہ صرف غلط ہیں بلکہ سندھ کے حصے پر اضافی بوجھ بھی ڈال رہے ہیں اور یہ منصوبہ نا صرف سندھ کے پانی کی تقسیم کے مسائل کو بڑھائے گا بلکہ اقتصادی اور سماجی لحاظ سے بھی سنگین مشکلات پیدا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ پاکستان کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے مستقبل میں پانی کی فراہمی پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے اور سندھ پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے، اس پر مزید کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر بڑے پیمانے پر آبپاشی کا نظام بنانا انتہائی قابل مذمت ہے، یہ منصوبہ نہ صرف سندھ کے پانی کے حقوق پر حملہ ہے بلکہ مقامی لوگوں کے زرعی نظام اور ماحول پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھی ایسوسی ایشن آف نار تھ امریکا سندھ کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر قدم پر ان کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔