حماس تیری مزاحمت کو سلام

210

ابو ظبی، دوحا اور مصر کی براہ راست سرپرستی اور امریکا کی بالواسطہ شرکت سے اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ اللہ اللہ کرکے طے پا گیا یہ مذاکرات کئی ماہ سے چل رہے تھے یہ تو اسرائیل ہی تھا جو ہر دفعہ مذاکرات میں کچھ نکات پر رضامند ہونے کے بعد بھاگ جاتا تھا اور الزام حماس کے اوپر لگا دیتا کہ حماس طے شدہ نکات سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ ان مذاکرات میں دوحا، مصر اور ابوظبی تو شدت سے خواش مند تھے کہ مذاکرات جلد کامیاب ہو جائیں امریکا بظاہر تو یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہ مذاکرات کا حامی ہے اور امریکا کی خواہش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو لیکن اس نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ اسرائیل روزآنہ بمبار ی کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کے چیتھڑے اُڑارہا تھا اور اس پر امریکا کی طرف یہ بیان آتا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ٹرمپ نے اپنی کامیابی کے بعد حماس ہی کو دھمکی دی کے وہ مذاکرات سے فرار اختیار نہ کرے ورنہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوگا اس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکے گی۔ یہ بیان کئی بار آیا لیکن ٹرمپ نے اسرائیل کو کچھ بھی نہیں کہا۔ جبکہ امریکی انتخابات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمان ووٹوں کی اکثریت جو ساٹھ ستر فی صد تک بنتی ہے نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا جبکہ یہودی ووٹروں کی اکثریت نے ٹرمپ کی مخالف امیدوار کملا ہیرس کو ووٹ دیا تھا۔ ٹرمپ کے اس بیان سے مسلمانوں کو شاک پہنچا کہ اس جنگ میں پچاس ہزار کے قریب فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوئے ہیں پھر وہ فلسطینی جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اس کی تو کوئی تعداد سامنے ہی نہیں آئی اور یہ غزہ کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا لیکن معاہدہ ہوجانے کے بعد کی جو خبریں مل رہی ہیں اس کی تفصیل میں یہ پوائنٹ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے مشرق وسطی کے ایلچی کو نیتن یاہو کے پاس بھیج کر یہ پیغام دیا کہ ہر صورت میں حلف بردار سے پہلے مذاکرات ہوجانا چاہیے اب یہ الگ بات ہے کہ بائیڈن بھی اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں ان کا یہ بیان بھی آیا ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی ہے پہلے مرحلے کے بعد ہم مستقل جنگ بندی تک پہنچ جائیں گے۔

میرے خیال میں مذاکرات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ تھی وہ یہی تھی کہ حماس کا بڑا اور بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ مستقل جنگ بندی ہو اور اسرائیل غزہ کا علاقہ خالی کردے جبکہ اسرائیل اس بات پر اڑا ہوا تھا کہ عارضی طور پر جنگ بند کردی جائے اور اسرائیلی افواج غزہ کا علاقہ خالی نہیں کرے گی۔ میں جب مذاکرات کی کامیابی کی خبر پڑھ رہا تھا تو خبر سے زیادہ دلچسپی مجھے اس فوٹو میں تھی جس میں فلسطینی خوشی سے نعرے لگا رہے تھے اور ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ فلسطین کے حوالے سے اگر ماضی قریب کا مطالعہ کیا جائے تو کئی معاہدے ہوئے جس میں یاسر عرفات کی قیادت میں اوسلو معاہدہ ہوا تھا آج تک اسرائیل نے کسی بھی معاہدے کی پابندی نہیں کی۔ اب جو معاہدہ ہوا اس میں بھی کئی خدشات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ابھی معاہدہ ہونے کے بعد بھی اس نے بمباری کی اور اس میں 73 فلسطینی شہید ہوئے جس میں ایک اسرائیلی یرغمالی بھی ہلاک ہوا۔ حماس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے بمباری نہیں روکی تو یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ حماس کے سابق سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت جس انداز میں ہوئی اس کی آخری لمحات کی تصویر پوری دنیا میں وائرل ہوئی وہ ایک ہاتھ سے زخمی ہے اور جو ڈرون اس کی طرف آرہا ہے دوسرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈنڈی سے اس ڈرون کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر شہید ہوجاتے ہیں۔ ان کی ڈائری کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں اس میں ایک اہم بات جو انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے بھی کہی تھی کہ حماس اسرائیلی یرغمالیوں کسی بھی قسم کے دبائو میں آکر رہا نہ کرے اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی، پھر یہی ہوا کے حماس نے نہ صرف ان کو کسی دبائو میں آکر واپس کیا اور نہ ہی ان کے قید میں رہنے کی جگہ کا کسی کو علم ہوا اسرائیل سر پٹخ کر رہ گیا کہ وہ شدید قسم کے حملے اور بمباری کرکے انہیں رہا کرالے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا آج جو حماس کو مذاکرات کی میز پر جو فتح حاصل ہوئی ہے اس میں یحییٰ سنوار کی اس نصیحت کا بھی دخل ہے۔

سوا سال کی جنگ میں اسرائیل نے کیا کھویا اور کیا پایا اور اس کے مقابلے میں ایک بظاہر کمزور سی تنظیم حماس نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کے تجزیے تو آتے رہیں گے۔ سردست تو یہ بات اہم ہے کہ 467 دن کی جنگ میں 100 فلسطینی اوسطاً روز کے حساب سے شہید ہوئے لیکن حماس کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی انہوں نے بڑی استقامت کے ساتھ اپنی مزاحمتی جنگ جاری رکھی بس اب تو دل سے یہی کلمات نکلتے ہیں کہ اے حماس والوں تمہاری عظمت کو سلام، اے فلسطینیوں تمہاری استقامت کو سلام، اے القسام بریگیڈ کے مجاہدوں تمہاری مزاحمت کو سلام۔ پہلے مرحلے میں چھے ہفتے کی سیز فائر ہوگی، 33 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں دوہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں 250 قیدی وہ ہیں جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے، پہلا مرحلہ جو ڈیڑھ ماہ کا ہے اس میں اسرائیلی فوجی غزہ کے گنجان علاقوں سے نکل جائیں گی اور اسرائیل مصر کی رفح کی راہداری کو کھول دے گا۔ 600 ٹرکوں کو یہاں سے غزہ جانے کی اجازت دی جائے گی۔ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے معاہدے کا اعلان کیا جو بائیڈن نے کہا ہے کہ سیز فائر بہترین امریکی سفارت کاری کا نتیجہ ہے، سوال یہ کہ یہ بہترین سفارت کاری پہلے کہاں سوئی ہوئی تھی حماس نے کہا ہے کہ جنگ بندی فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مزاحمت کا نتیجہ ہے، حماس کے مرکزی رہنما خلیل الحیا کا کہنا ہے کہ فلسطینی عوام 467 روز تک جاری اسرائیلی مظالم کو بھولیں گے نہ ہی اسے معاف کریں گے۔ فلسطینیوں نے کبھی بھی اسرائیل کے سامنے اپنی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔

دیکھا جائے تو اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا وہ جو غرور میں مبتلا تھا اور کہتا تھا کہ ہم غزہ کو چند ہفتوں میں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے آج اس کا غرور خاک میں مل گیا یمن کے حوثیوں نے جنگ بندی پر مزاحمتی گروپوں کو سیلوٹ پیش کیا ہے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس، یورپی یونین اور عالمی برداری نے جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے معاہدے کی جزیات کا کام ابھی باقی ہے جنہیں چند گھنٹوں میں حل کرلیا جائے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’اگلے چھے ہفتوں کے دوران اسرائیل دوسرے مرحلے تک پہنچنے کے لیے ضروری انتظامات پر بات چیت کرے گا جس سے جنگ کا مستقل خاتمہ ہوگا‘‘۔ دوسرے مرحلے میں جانے کے لیے بات چیت کے لیے بہت سے مسائل ہیں لیکن منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اگر مذاکرات میں چھے ہفتے سے زیادہ وقت لگتا ہے تو جنگ بندی تب تک جاری رہے گی جب تک مذاکرات جاری رہیں گے۔

7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کے 405 فوجی ہلاک ہوئے اسرائیل کے اندر کی ہلاکتیں 1200 سے زائد ہیں اسرائیل فورسز کے ہاتھوں جو فلسطینی شہید ہوئے ہیں اس میں 18 ہزار بچے اور 11ہزار ملبے تلے دفن ہیں لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ ملبے تلے دب کر شہید ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ اجتماعی قبروں کا انکشاف بھی ہو۔ اس جنگ بندی کے بعد سب سے پہلا کام ایک لاکھ سے زائد زخمیوں کا علاج معالجہ ہے اس کے لیے جو چھے سو ٹرک رفح کراسنگ سے غزہ میں آئیں گے اس میں زیادہ تر میڈیکل کے سامان اور دوائیں ہیں اسپتال تو سارے تباہ کردیے گئے اب عارضی اسپتال قائم کیے جائیں گے۔ کم از کم 19 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں 4 لاکھ 36 ہزار مکانات مکمل تباہ ہوچکے۔ غزہ چار کروڑ ٹن ملبے کا ڈھیر ہوکر رہ گیا، چھے لاکھ ساٹھ ہزار بچوں کو ایک سال سے اسکول تک رسائی نہ مل سکی غزہ کے 564 اسکول میں سے 534 کو تباہ کردیا گیا۔