غزہ /تل ابیب (مانیٹرنگ ڈیسک) غزہ میں جنگ بندی کے بعد تباہ شدہ علاقوں میں عمارتوں کے ملبے سے فلسطینیوں کی لاشیں ملنے کا سلسلہ بدھ کو بھی جاری رہا جہاں سے اب تک 120 لاشیں اسپتال منتقل کی جاچکی ہیں۔ غزہ سول ڈیفنس کے مطابق گزشتہ روز غزہ پٹی کے اسپتالوں میں 72 فلسطینیوں کی لاشیں لائی گئی جن میں سے 68 لاشیں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبوں اور میدانوں سے اٹھائی گئی تھیں۔رپورٹ کے مطابق لاشوں کی تعداد اب120 تک پہنچ گئی ہے جب کہ اسپتالوں میں 56 فلسطینیوں کو زخمی حالت میں بھی لایا گیا تھا۔غزہ سول ڈیفنس کے مطابق اکتوبر 2023ء سے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ پٹی میں 47 ہزار107فلسطینی شہید ہوئے جب کہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ11ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔غزہ میں حملے روکتے ہی اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فوجی آپریشن شروع کر دیا، فائرنگ سے 9 فلسطینی شہید ہوگئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں جنین شہر میں فوجی آپریشن کیا جس میں 9 فلسطینی شہید اور 40 زخمی ہوئے۔ اسرائیلی آبادکاروں نے بھی مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی املاک پر حملے کیے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے جنین کو عسکریت پسندوں کی نئی آماجگاہ نہیں بننے دیں گے۔دوسری جانب حماس کے رہنما زہیر جبارین نے کہا کہ غزہ کی طرح مقبوضہ کنارے میں بھی نیتن یاہو کو شکست دیں گے۔ ادھر غزہ میں اسرائیل حماس جنگ بندی کے تیسرے روز بھی بے گھر فلسطینیوں نے تباہ حال علاقوں کی طرف واپسی کی اور امدادی سامان اور ایندھن کے ٹرکوں کی آمد بھی جاری رہی۔حوثیوں نے بحیرہ احمر میں حملے بند کرنے کا اعلان کردیا ۔ امریکا میں قیادت کی تبدیلی کے ساتھ، مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوتا دکھائی دے رہا ہے‘ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد یمن کے حوثیوں نے بھی بحیرہ احمر میں جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا جائے گا۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے حوثیوں نے اہم تجارتی راستے پر اپنے حملے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے سے علاقے میں جہاز رانی کو لاحق خطرات میں کمی آئے گی۔ رپورٹ کے مطابق حوثیوں نے جہازوں کے مالکان، انشورنس کمپنیوں اور حکام کو اس حوالے سے آگاہ کردیا ہے، تاہم، اسرائیل میں رجسٹرڈ یا اسرائیلی اداروں کی ملکیت والے بحری جہاز خطرے میں رہیں گے۔