غزہ میں جنگ بندی

305

غزہ کے نہتے عوام پر 15 ماہ تک جاری رہنے والی تباہ کن بمباری بالآخر جنگ بندی کے معاہدے کے بعد رک گئی،جنگ بندی کے نفاذ کے بعد امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہونا شروع ہو گئے اور بے گھر فلسطینی اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں،معاہدے کی کامیابی پر جہاں دنیا بھر کے امن پسند افراد نے سکھ کا سانس لیا وہیں فلسطینیوں نے بھی فتح کا جشن منایا،حماس کے مجاہدین نے دیر البلاح اور خان یونس کی سڑکوں پر گشت کیا، فلسطینی عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا،ہزاروں فلسطینی پولیس افسران مختلف علاقوں میں تعینات کردیئے گئے، گلیوں کو دوبارہ کھولنے اور بحال کرنے کا کام شروع کردیاگیا،جنگ بندی کے معاہدے میں امریکا ،مصر اور قطر نے اہم کردار ادا کیا،جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اسرائیلی یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے جس پر عمل در آمد کرتے ہوئے اتوار کے روز حماس نے تین اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرکے ریڈ کراس کے حوالے کیا،بعد ازاں جنگ بندی کے معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں سے 90فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا جن میں 69 خواتین اور21 بچے شامل تھے۔حماس کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا اگلا مرحلہ 25 جنوری سے شروع ہوگا۔واضح رہے کہ 8اکتوبر2024سے لے کر اب تک اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت 47ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد افراد زخمی ہوئے جب کہ ہزاروں افراد ابھی تک لاپتا ہیں۔جنگ بندی کا معاہدہ تین مراحل پر مشتمل ہوگا،پہلے مرحلے میں یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ،غزہ میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی اور اسرائیلی افواج کا غزہ سے مرحلہ وار انخلا شامل ہے جب کہ دوسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو کے لیے بین الاقوامی امداد فراہم کی جائے گی غزہ کی ناکہ بندی میں نرمی اور تجارتی راستوں کو بحال کیا جائے گا ،جب کہ معاہدے کے تیسرے مرحلے میں طویل المدتی جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔یوں تو غزہ پر جنگ بندی کے حوالے سے متعدد بار کوششیں کی گئیں مگر ہر بار اسرائیل کی ناقابلِ عمل شرائط کی وجہ سے یہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکیں،جنگ کے فوری بعد مصر نے حماس اور اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کئی بار ثالثی کی پیشکش کی اورفریقین کو جنگ بندی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی، مصر نے اس دوران کئی اہم مذاکرات کیے اور فریقین کے درمیان بات چیت کی پیشکش کی،دوسری مرتبہ امریکہ اور قطر نے بھی جنگ بندی کے لیے ثالثی کی کوشش کی۔22اکتوبر 2024 کو یورپی یونین نے جنگ بندی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا اور دونوں فریقوں کے ساتھ گفت و شنیدکی،27 اکتوبر 2024 کو مصر، امریکہ اور قطر نے دوبارہ ایک مشترکہ کوشش کی، جس میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ایک فریم ورک تیار کیا گیا۔ اس دوران کچھ غیر رسمی معاہدے طے پائے لیکن مکمل جنگ بندی پھر بھی نہیں ہو سکی، بالآخر30 اکتوبر 2024 تک عارضی جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت 72 گھنٹوں کے لیے فائر بندی کی گئی تاکہ امدادی سامان غزہ میں پہنچایا جا سکے تاہم، اس جنگ بندی کو بھی اسرائیل نے سبوتاژ کردیا،3 نومبر 2024 کواقوام متحدہ نے جنگ بندی کے سلسلے میں مداخلت کی اورجنگ بندی کو ممکن بنانے کے لیے مذاکرات کی پیشکش کی مگر اسرائیل اس پربھی آمادہ نہیں ہواتاآنکہ حالیہ معاہدے پر اسرائیل کو مجبوراً آمادہ ہونا پڑا۔حالیہ جنگ بندی کے اس معاہدے پر عمل درآمد پر نیتن یاہو آخری دم تک ڈانوا ڈول رہے، جب تک قیدیوں کا عملاًتبادلہ نہیں ہوا تب تک اس معاہدے کے باوجود غزہ پر بمباری جاری رکھی گئی جس کے نتیجے میں 33بچوں سمیت 122 فلسطینی شہید ہوئے۔ غزہ میں جنگ بندی کو عالمی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے، برسلز میں یورپی کمیشن نے ثالثی کرنے والے ممالک کی تعریف کی اور حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدے کا خیرمقدم کیا،یورپی یونین نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے تعاون کی پیش کش بھی کی ہے۔دوسری جانب اسرائیل کے سخت گیر قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اور ان کی قوم پرست مذہبی جماعت سے وابستہ دو مزید وزرا نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا جب کہ نیتن یاہو نے ٹی وی پر خطاب میں ڈھٹائی سے اعلان کیا ہے کہ کہ ہم غزہ میں جنگ کو بحال رکھنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں،حتیٰ کے مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ معاہدہ اپنی اہمیت کھو دے،اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ہم دوبارہ جنگ شروع کرسکتے ہیں۔فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت سے ناواقف عناصر حالیہ صورتحال کا ذمہ دارحماس کو ٹھیراتے ہوئے سارا ملبہ اس کے سر ڈال رہے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے نہتے عوام پراپنے جرائم کی پوری ایک تاریخ رکھتا ہے اپنے قیام کے اول روز ہی سے نہتے فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، فلسطینیوں پر حملے کے لیے اسے کسی جواز کی ضرورت نہیں 2007 کو جب حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا اسی وقت سے اسرائیل نے غزہ کی سخت ناکہ بندی کردی تھی جس کی وجہ سے غزہ کی معیشت اور معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہوئے،اس ناکہ

بندی کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے فضائی حملے کیے،تب سے آج تک ظلم،سفاکیت اور کھلی دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حماس نے اپنے عزم و ہمت سے اسرائیلی غرور کو خاک میں ملا دیا ہے اور دنیا بھر کو پیغام دیا ہے کہ جنگ آلاتِ ضرب و حرب سے نہیں جذبہ ایمانی اور شوقِ شہادت سے لڑی جاتی ہے،حماس کی مزاحمت میں ان حکمرانوں کے لیے بھی سبق ہے جو استعمار کی ایک دھمکی پر اپنی آزادی و خودمختاری کو سودا کر لیتے ہیں۔خوش آئند امر یہ کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے بھی پا گیا ہے اور پہلے مرحلے میں قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوگیا ہے اورفریقین نے مستقل جنگ بندی پربھی آمادگی ظاہر کردی ہے مگر دیکھنااب یہ ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی کب تک برقرار رہتی ہے؟، غزہ کو فتح کرنے اور حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے بلند و بانگ دعوؤں کے علی الرغم جنگ بندی کے معاہدے کو صہیونی حکومت کی تاریخی شکست سمجھا جارہاہے اس تناظر میں خوئے بد رابہانہ بسیار فطرت کے حامل اسرائیلی حکام سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے پربرقرار رہیں تاہم دیرپاجنگ بندی اورخطے میں امن کے قیام اور غزہ کی تعمیرِ نوکے لیے ناگزیر ہے کہ عالمی طاقتیں اور مسلم دنیا اپناکردار ادا کرے،مغربی دنیا تعصب اور مسلم دشمنی پر مبنی پالیسیوں کو ترک کر کے معروضی طرز عمل اختیارکرے اور فلسطینیوں کے خود ارادیت کے اس حق کو تسلیم کرے جس حق کے تحت اقوامِ متحدہ کے متعددممالک آزاد ہوئے بصورت دیگر پرنالہ وہیں گرتا رہے گا ،اسرائیل جنگ بندی کے معاہدوں کوتوڑتا رہے گا،فلسطینی عوام جارحیت کا نشانہ بنتے رہیں گے اور صرف فسلطین ہی نہیں پورا مشرقِ وسطیٰ بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار رہے گا۔