سیول (انٹرنیشنل ڈیسک) جنوبی کوریا میں مارشل لا کی وجہ سے معزول کیے جانے والے صدر یون سک یول کو گرفتار کرکے قید تنہائی میں منتقل کردیا گیا۔ یون کے حامیوں کی طرف سے ان کی رہائی کے لیے پرتشدد احتجاجی کاروائیوں کے باعث حکومت کی جانب سے حفاظتی تدابیر اختیار کر لی گئی ہیں۔ یون نے مارشل لا کے بارے میں جاری تفتیش کے دوران بیان دینے سے انکار کر دیا تھا ،جس کے بعد ان سے زبردستی بیان دلوانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق اعلیٰ عہدے داروں کی بدعنوانیوں سے متعلق تحقیقات کرنے والے ادارے کے تفتیش کار حراستی مرکز کا دورہ کر سکتے ہیں۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ صدر کو زبردستی انسدادِ بدعنوانی ادارے کی عمارت میں لایا جائے گا تاکہ وہاں ان سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔ تفتیشی ٹیم کی طرف سے حراست میں لیے جانے کے بعد یون بدھ کے روز پوچھ گچھ کے لیے پیش ہوئے تھے، لیکن انہوں نے مزید پوچھ گچھ کی درخواستوں پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ وزارتِ انصاف نے بتایا کہ یون کو گرفتاری کے بعد 12 مربع میٹر کے کمرے میں قید تنہائی میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ سابق صدر نے پولیس کو اپنے چہرے کی تصویر لینے کی اجازت دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔یاد رہے کہ اتوار کے روز معزول صدر کی رہائی کے لیے احتجاج کیا گیا تھا،جس میں 44ہزار سے زائد افراد دارالحکومت سیول میں جمع ہوئے۔ حکومت نے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 86افراد کو حراست میں لے لیا۔ جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی نے مارشل لاکو غیر آئینی قرار دے کر یون کی معزولی کا مطالبہ کیا تھا،جس کے بعد 18 جنوری کو انہیں بغاوت کی قیادت اور اختیارات کے غلط استعمال کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سرکار ٹیم صدر کو فروری کے اوائل تک حراست میں رکھ کر پوچھ گچھ کرے گا۔