فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے سے عدالتوں کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے،جسٹس اطہر من اللہ

76

لاہور(صباح نیوز)عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ آج کل عدالت کے لیے سب سے مشکل کام اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہے، عدالت اگر فیصلے پر عمل درآمد نہ کراسکے تو اس کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ لاہور کے نجی ہوٹل میں پہلی بین الاقوامی جانوروں کے حقوق اور ماحولیات کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اہم فیصلوں پر روشنی ڈالی۔انہوںنے کہا کہ عدالت نے جبری گمشدگیوں، قیدیوں کے حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے کئی اہم ججمنٹس دی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ ججوں پر بات کی جاتی ہے قانون تو ایک ہے لیکن ججمنٹ کیوں مختلف ہوتی ہے ،قانون ایک ہوتا ہے لیکن کیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ،بچپن میں سنا ہے شیر پرائڈ اور جرات کی نشانی ہوتا ہے جب لندن زوو گیا تو دیکھا یہاں تو شیر قید ہے، ہر مذہب میں زندگی کو بہت قیمتی سمجھا جاتا ہو پھر وہ انسان ہو،جانور ہو یا پھر پودے میں کیمبرج یونیورسٹی گیا تو سول لبرٹی میرا پسندیدہ سبجیکٹ تھا۔انہوں نے خاص طور پر جبری گمشدگی کے کیسز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسز میں عدالت نے متاثرین کے درد کو سمجھتے ہوئے فیصلے کیے،بطور جج میں اس درد کو محسوس کرسکتا ہوں جو کسی کا عزیز جبری گمشدہ ہونے پر اہل خانہ پر گزرتا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد کے چڑیا گھر کے حوالے سے دی گئی ججمنٹ پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ جانوروں کے حقوق کا تحفظ بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا انسانی حقوق کاہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر زندگی قیمتی ہے، چاہے وہ انسان کی ہو، جانور کی یا پودوں کی۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں سیاسی ریلی نکالنے پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا، جنرل ضیا نے سری لنکا کی حکومت سے درخواست کی کہ ان کی بیٹی ہاتھی کا بچہ رکھنا چاہتی ہے،یہ ایک حکومت کی دوسرے ملک کی حکومت کو درخواست تھی، ہاتھی بھی ہم انسانوں کی طرح بہت جذباتی ہوتے ہیں،3 سالہ ہاتھی کا بچہ سری لنکا سے پاکستان آیا اور ایک بیک یارڈ میں رکھا گیا،ہاتھی کا بچہ بڑا ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد میں چڑیا گھر بنایا جائے اور اسے وہاں رکھا جائے۔انہوں نے پاکستان میں طاقت کے زور پر اقتدار کے حصول اور جنرل ضیا الحق کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کیاجاتا رہا، یہ دور سب سے خوفناک تھا، جس میں ٹارچر سیلز بنائے گئے اور لوگوں کو مہینوں عقوبت خانوں میں رکھا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی برطرفی اور انہیں قتل کیا گیا،بدقسمتی سے عدلیہ کو ذوالفقار بھٹو کے قتل کے لییاستعمال کیا گیا ۔لاہور کے شاہی قلعہ میں سیاسی ریلی نکالنے پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔کانفرنس کے دوران انہوں نے جانوروں کے حقوق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔انہوں نے اس موقع پر پاکستان کی پہلی بین الاقوامی جانوروں اور ماحولیات کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد دی۔جسٹس اطہر من اللہ نے بنی گالہ کی خوبصورتی کو داغدار کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹائون پلانر نے اسے جانوروں کے قیام کی بہترین جگہ قرار دیا تھا، مگر اشرافیہ نے وہاں رہائش گاہیں قائم کرکے قدرتی خوبصورتی کو نقصان پہنچایا۔