اتنی آلودہ ہے اس فضا کی جبیں
آسماں پر ہے چھایا دھواں ہی دھواں
کھوکھلی ہے زمیں
غم کی آندھی ہے جیسے کہ چلنے لگی
ہے گھٹن اس قدر سانس رکنے لگی
اس پہ غصے میں اب یہ سمندر بھی ہے
ایسا ہی اک جہاں اس کے اندر بھی ہے
جس کی لہروں پہ ہم نے ترانے لکھے
ریت پر چاہتوں کے فسانے لکھے
ہم نے خوشیاں وہ پائیں جو انمول ہیں
اب یوں لگتا ہے سب دور کے ڈھول ہیں
سن سمندر ذرا
ماہی گیروں کی روزی ہے رحمت ہے تو
رب نے بخشی ہے ہم کو وہ نعمت ہے تو
تو نے موتی دیئے ہم نے حاصل کیے
ہم نے آلودہ تر تیرے ساحل کیے
کچرے اور فضلے جب اس میں داخل کیے
ان سبھی نے حوادث کو آواز دی
اور طبیعت فضاؤں کی ناساز کی
عام شہری کی اس میں خطا کچھ نہیں
ہیں وہ لا علم ان کو پتہ کچھ نہیں
اے سمندر بتا
بے اماں سائبانوں کے ہوتے ہوئے
دربدر ہوں مکانوں کے ہوتے ہوئے