پاکستان کی قدر کرو

221

اے ابن آدم ہم ایک آزاد خود مختیار ریاست ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں جو بھی قیادت ملی وہ غلامانہ اور مفلوج سوچ کی حامل ہے۔ ملک کو بچانا ہے تو جماعت اسلامی کو لانا ہوگا۔ ایماندار، محبت وطن لوگوں کی واحد جماعت ہے، بغیر رشوت کے کام کرتی ہے۔ ملک میں روز بروز کرپشن بڑھتی جارہی ہے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کی جڑیں روز اوّل سے ہیں جو وقت کے ساتھ مضبوط ہو چکی ہیں اور یہ قومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کرتی سیاسی جوڑ توڑ کے علاوہ ملک کے لیے کئی اور کام کرنے کی ضرورت ہے اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ سب سے پہلے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، پولیس، رینجرز، سی آئی اے، ایف آئی اے، نیب جیسے ادارے کیا کررہے ہیں جن اداروں کو جرائم اور کرپشن کے لیے بنایا جاتا رہا وہ خود کرپشن میں ملوث ہیں اگر ملک میں ایماندار طریقے سے احتساب کیا جائے تو حکومت اور اپوزیشن کا ہر ذمے دار آپ کو کرپشن زدہ نظر آئے گا۔ غریب چوری کرلے تو اسے سزا ملتی ہے اور اربوں کا کرپشن کرنے والا باعزت طریقے سے کرپشن کی جاری چین کا حصہ بن کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ سندھ میں کرپشن پیپلز پارٹی کی زیر سرپرستی اپنے بام عروج پر ہے۔ کے الیکٹرک کا ادارہ جس طرح سے عوام کو لوٹ رہا ہے یا بجلی کے تمام اداروں کو لے لو سب اس وقت سوئی گیس کا محکمہ بھی لوٹ مار میں لگ چکا ہے میں آپ کو بتاتا ہوں گیس کا پریشر نہ ہونے کی وجہ سے میٹر یا تو چلتا نہیں ہے اگر چلتا ہے تو ماہانہ یونٹ 2 سے 25 تک یا ایم ایم بی ٹی یو 0.2-0.3-0.5 تک بھی نہیں پہنچتا اس صورت میں PUG چارجز اور اس پر PUG EXCISE TAX لگا کر بھیجا جارہا ہے۔ اس PUG کا مطلب بھی ساتھ لکھا ہوتا ہے بل پھر یعنی Slow Meter Rate پھر Slow Meter کی وجہ سے سوئی سدرن گیس کی ویب سائٹ پر لکھی ہے کہ آپ کو جس بہتر پریشر سے گیس سپلائی کی جارہی ہے آپ کا میٹر ٹیکنیکل (گراریوں) کی خرابی کی وجہ سے گیس اسٹینڈرڈ کے مطابق پاس نہیں کررہا اگر (SSGC) خود سے بل میں PUG چارجز کی بنیادی وجہ (میٹر خراب) تک پہنچ چکا ہوتا ہے تو فوری طور پر میٹر تبدیل اس لیے نہیں کیا جاتا کہ (Slow Meter) کی مد میں تقریباً کم سے کم 1000 روپے کسٹمرز سے لوٹے جاتے رہے، میٹر تبدیل کر بھی دیا تو (SSGC) گیس تو دے نہیں رہی میٹر تبدیل پر بھی یونٹ تو بنیں گے نہیں اس لیے PUG چارجز کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے رہو اس کو ٹھیک کروانا ہو تو کم از کم 3 مختلف (SSGC) آفس بھیج کر خوار کروایا جاتا ہے۔ بل ایک دفعہ ٹھیک کروانے کے بعد (SSGC) اپنے سسٹم میں نہیں ڈالتے اور PUG چارجز پھر سے لگ کر آتے رہتے ہیں جو کہ 1000 یا 400 روپے اضافی چارجز کے علاوہ ہے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے ہر آدمی بجلی اور گیس کے بلوں پر غور نہیں کرتا بس اُس کو بل جمع کروانے کی جلدی رہتی ہے ہر ادارے کے بڑے بڑے کسٹمرز سینٹر کام کررہے ہیں مگر وہاں سے عوام کو سوائے ذلت کے کچھ نہیں ملتا۔ KE کا اسٹاف و افسران تو فرعون بن چکے ہیں جس افسر کے پاس جائو تو ایک جملہ سننے کو ملتا ہے میں بے اختیار ہوں آپ فلانے صاحب سے ملیں جب آپ فلانے صاحب کے کمرے میں جاتے ہیں تو سیکورٹی گارڈ روک لیتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں آپ انتظار فرمائیں جب آپ کا اندر جانے کا نمبر آتا ہے تو جواب ملتا ہے یہ بل تو جمع کروانا ہی ہوگا کمپنی کی پالیسی ہے ہمارے ملک میں افسر شاہی فرعون بنے ہوئے ہیں جبکہ ان کی تنخواہیں عوام دیتے ہیں مگر افسوس کے کوئی اس بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ اندرون سندھ سے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو لاکر بڑی بڑی پوسٹوں پر لگادیا ہے جن کو نہ انگریزی لکھنی آتی ہے نہ بولنی آتی ہے۔ وہ بس مال بنانے کی مشینیں ہیں ایک سے بڑھ کر ایک سفارشی کراچی کے اداروں میں عیاشی کررہے ہیں کراچی کی قیادت ان کے ہاتھوں میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے سب مل کر کھا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا دشمن ملک بھارت ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق بھارت 2025ء میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن جائے گا۔ آئی ایم ایف کے اندازہ کے مطابق بھارت کی جی ڈی پی 4.339 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی جو جاپان کے 4.310 ٹریلین سے تجاوز کر جائے گی بھارت کے لیے یہ سب کچھ من موہن سنگھ کے باعث ہے جو پاکستان کے شہر چکوال کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے، من موہن انتہائی غریب تھے۔ اسٹریٹ لائٹ میں پڑھا کرتے تھے۔ بھارت من موہن سنگھ کو مسیحا تصور کرتا ہے۔ چین کو شی جن پنگ کی صورت میں ایک مسیحا ملا ہوا ہے چین ترقی پہ ترقی کرتا جارہا ہے ملائیشیا کیا تھا مگر ڈاکٹر مہاتیر محمد قیادت نے ملک کو بنا ڈالا۔ بنگلا دیش میں حالیہ انقلاب کے بعد ڈاکٹر یونس جیسا ایماندار مسیحا مل گیا اگر آپ متحدہ عرب امارت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں پر مٹی آتی تھی مگر اسے شیخ زاید بن النہان جیسا لیڈر ملا جس نے متحدہ عرب امارت کو بدل کر لکھ دیا آج وہاں بے پناہ دولت ہے مجھے ابوظبی کی مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا تو مسجد کے ایک کونے میں شیخ زاید کی کچی قبر کی زیارت کی فاتحہ ہاتھ اٹھا کر وہ پڑھنے نہیں دیتے سعودی عرب کی طرح وہ کہتے ہیں دل میں پڑھیں اور منہ قبر کی طرف نہیں بلکہ کعبہ کی طرف ہونا ہے یہ ایمان والے لوگ اُن کی قبر پر کوئی سلامی دینے نہیں آتا۔ آپ کی قبر پر 24 گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے نہ کوئی اگر بتی نہ کوئی گلاب کے پھول اگر شیخ زاید کا پاکستان سے تعلق ہوتا تو اُن کا بڑا عظیم الشان مزار بنادیا جاتا۔ محفل سماع ہوتی، چندا آتا، لنگر ہوتا دراصل ہمارے علما حضرات نے ہمیں فرقوں میں تقسیم کردیا ہے، ہمارے پاکستان کو دو چیزوں نے تباہ کردیا ہے۔ لسانیت، فرقہ واریت۔ ماضی میں یہ قوم ایک جشن مناتی تھی وہ تھا یوم آزادی 14 اگست۔ وقت کے ساتھ ہر قوم نے اپنا ایک ڈے منانا شروع کردیا۔ سندھی اجرک ڈے، بلوچ ڈے، مہاجر ڈے، پنجابی ڈے، پشتون ڈے ابھی 2 مزید ڈے کا اضافہ ہوا ہے سرائیکی ڈے جو آرٹ کونسل کراچی میں ہوا تھا دوسرا ہزارہ ڈے تھا جس کی باقاعدہ مجھے لالہ رفیق خان نے دعوت دی تھی۔ اے ابن آدم تم کو ایک سازش کے تحت ٹکڑوں میں تقسیم کیا جارہا ہے ہوش کے ناخن لو متحد ہونے کی بات کرو۔ دراصل ہم ناشکرے لوگ ہیں محب وطن اور ایماندار لوگوں کی ہم قدر نہیں کرتے، ہمارے ملک میں ڈاکٹر محبوب الحق جیسے معاشی ماہر موجود رہے، ہم نے ان کی قدر نہیں کی، ہمیں ذلت کی زندگی گزارنے کی عادت پڑ چکی ہے، ہم نے ٹیپو سلطان اور حیدر علی، محمد بن قاسم کو چھوڑ دیا ہے، ہم نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان کو اپنا مسیحا سمجھ کر ان کے پیچھے چل رہے ہیں مگر زندگی روز بروز بدحال ہورہی ہے ہمیں اب جماعت اسلامی کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔