غزہ میں صحافیوں کی قربانیاں بھی یاد رکھی جائیں گی

199

غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا ہے۔ مغویوں اور قیدیوں کا تبادلہ ہونے والا ہے۔ غزہ کے باشندوں کے لیے امداد کی ترسیل شروع ہونے والی ہے۔

لڑائی روکنے کی تیاری ہو رہی ہے اور فلسطینیوں کی اپنے علاقوں میں آزادانہ نقل و حرکت کی گنجائش پیدا ہو رہی ہے۔ ایسے میں ان صحافیوں کی قربانیوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی اپنے پیشہ ورانہ فرائض پوری جاں فشانی، بے خوفی اور دیانت سے انجام دیے۔

برطانوی اخبار دی گارجین نے غزہ کی لڑائی کے دوران صحافیوں کی قربانیوں کے بارے میں ایک فیچر شایع کیا ہے۔ اخبار لکھا ہے کہ سلمٰی قدومی، ایمن الغیدی، ایمان الشنتی، ابراہیم محارب اور دیگر بہت سے صحافی شہید و زخمی ہوئے۔

ان سب کی قربانیاں صحافت کے لیے سرمایہ افتخار ہیں کیونکہ غزہ کی پٹی میں ایک وقت وہ بھی گزرا جب کسی شخص کو صحافیوں کے مختص ویسٹ پہننا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اسرائیل نہیں چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی غزہ اور اُس سے ملحق علاقوں میں ہو رہا ہے اُن کے بارے میں دنیا کو کچھ معلوم ہو۔

صحافیوں کو پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی سے روکا جاتا رہا اور جو لوگ بات ماننے پر آمادہ نہ ہوئے اُنہیں شہید یا زخمی کردیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے بعض صحافیوں پر ٹینک سے گولے بھی داغے۔