واشنگٹن پوسٹ کا وجود بھی خطرے میں پڑگیا

130

امریکا کے انتہائی موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ کا وجود بھی خطرے میں پڑگیا ہے۔ اخبار کے 400 سے زائد ملازمین نے ایک مشترکہ خط میں اخبار کے مستقبل کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ارب پتی آجر اور صنعت کار جیف بیزوز سے ملاقات کے لیے وقت مانگا ہے۔

جیف بیزوز واشنگٹن پوسٹ کے مالک ہیں تاہم وہ کبھی کبھار ہی واشنگٹن میں اخبار کے دفتر میں قدم رکھتے ہیں۔ این پی آر کی رپورٹ کے مطابق خط میں ملازمین نے لکھا ہے کہ اخبار کی انتظامیہ نے تمام ملازمین کو اعتماد میں لیے بغیر چند ایسے فیصلے کیے ہیں جن سے اخبار کی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے۔ نیوز اور ویوز کے حوالے سے اخبار کی شفافیت اور غیر جانب داری کا حوالہ دیتے ہوئے ملازمین نے خط میں لکھا ہے کہ اخبار کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔ جو ادارہ دنیا بھر میں غیر معمولی وقعت کا حامل تصور کیا جاتا ہے اُس کے فیصلے سوچے سمجھے بغیر کیے جارہے ہیں۔

خط میں اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ انتظامیہ کے بعض حالیہ فیصلوں سے دل برداشتہ ہوکر چند سینیر شخصیات نے ادارے کو خیرباد کہنے میں عافیت جانی ہے۔

ملازمین نے خط میں لکھا ہے کہ بیشتر امریکی مطبوعات پر واشنگٹن پوسٹ کی برتری یقینی بنائے رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اعتماد بحال کیا جائے اور ملازمین کو ادارے کی انتظامیہ سے بہتر روابط برقرار رکھنے کا موقع دیا جائے۔


جیف بیزوز نے چند ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن پوسٹ امریکی صدارتی امیدواروں میں سے کسی کا ساتھ دینے کی پالیسی ترک کرکے غیر جانب داری اپنارہا ہے۔ اس فیصلے کی نتیجے میں اخبار کو اپنے 10 فیصد (تقریباً ڈھائی لاکھ) سبسکرائبرز سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اس کے نتیجے میں اخبار کو 2024 میں 10 کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔


اخبار ڈجیٹل وزیٹرز کی تعداد بھی نصف رہ گئی ہے۔ نومبر 2020 میں واشنگٹن پوسٹ کے ڈجیٹل وزیٹرز کی تعداد 11 کروڑ 40 لاکھ تھی جو نومبر 2024 میں 5 کروڑ 40 لاکھ رہ گئی۔


ایک ہفتہ قبل ہی واشنگٹن پوسٹ کی انتظامیہ نے 100 ملازمین کو فارغ کیا ہے جو اس پبلیکیشن کی ورک فورس کا 4 فیصد ہے۔ جون میں واشنگٹن پوسٹ کے نیوز روم کی ٹاپ ایڈیٹر سیلی بزبی نے اس وقت استعفٰی دے دیا جب کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو وِل لیوئس نے نیوز روم کی تنظیمِ نو کا اعلان کیا۔ سیلی کی جگہ رابرٹ وِنیٹ کو لایا جارہا تھا مگر عملے کی ناراضی دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ منسوخ کردیا گیا۔

اس سے قبل کسی بھی امریکی صدارتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کی پالیسی کے اعلان پر کئی سینیر اسٹاف رائٹرز مستعفی ہوگئے تھے۔ ان میں پُلٹزر پرائز جیتنے والی کارٹونسٹ این ٹیلنیز بھی شامل تھی۔ اُس نے ایک کارٹون میں دکھایا گیا تھا کہ امریکا کے ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے جھک رہے ہیں۔ اس کارٹون کو شایع کیے جانے سے انکار پر این ٹیلنیز نے ادارے کو چھوڑنا بہتر سمجھا۔ واشنگٹن پوسٹ نے ٹرمپ کی طرف سے نامزد کیے جانے والوں میں پیٹ ہیگسیتھ، تُلسی گیبرڈ، رسل واٹ اور رابرٹ ایف کینیڈی کی توثیق سے بھی گریز کیا تھا۔