کولہو کے بیل کی آنکھوں کو اس طرح ڈھانکا جاتا ہے کہ اسے صرف سامنے کی چیز نظر آئے ادھر ادھر در ودیوار پر اس کی نظر نہ پڑے تاکہ اسے محسوس ہو کہ وہ لمبے سفر پر گامزن ہے اور جب شام کو اسے کھولا جاتا ہے تو بیل اپنے تئیں خوش ہوتا ہے کہ آج اس نے میلوں کا سفر طے کرلیا، جبکہ عملاً وہ اسی جگہ پر کھڑا ہوتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جو مذاکرات ہورہے ہیں اس کی مثال کولہو کے بیل جیسی ہے کہ مذاکرات چلتے ہوئے تو نظر آرہے ہیں لیکن عملاً دونوں فریق اسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں وہ مذاکرات کا ڈول ڈالنے سے پہلے کھڑے تھے۔ مذاکرات کا پہلا رائونڈ تو کچھ پھیکا پھیکا سا لگا پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد ہی پوری نہ تھی لیکن حکومتی وفد نے مذاکرات کو کچھ آگے بڑھاتے ہوئے پی ٹی آئی سے کہا کہ وہ اپنے مطالبات تحریری شکل میں دے دیں۔ پی ٹی آئی کے وفد نے کہا ابھی ہماری تعداد پوری نہیں اس حوالے سے ہمیں باہمی مشاورت کرنا ہے لیکن یہ طے ہوگیا کہ مذاکرات کو جاری رکھا جائے گا اور ایک ہفتے بعد دوسرے رائونڈ کا فیصلہ ہوگیا۔ دوسرے رائونڈ میں پی ٹی آئی کی حاضری تو مکمل تھی لیکن وہ اپنا ہوم ورک کرکے نہیں آئے تھے۔ جب ان سے مطالبات کی تحریر مانگی گئی تو انہوں نے یہ شرط لگائی کہ ہمارے وفد کی عمران خان سے ملاقات کرائی جائے ان کی مشاورت سے تحریر کر دیں گے۔ پی ٹی آئی کے مذاکراتی ارکان اس انجانے خوف کا شکار ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے دو مطالبات لکھ کر دے دیے تو کہیں خان صاحب ناراض نہ ہوجائیں اور ہمیں جیل میں ڈانٹ پڑجائے اس لیے سب نے یہی متفقہ فیصلہ کیا کہ عمران خان سے ملاقات کی شرط عائد کردی جائے دوسرے رائونڈ کی میٹنگ میں جب یہ بات آئی تو سرکاری وفد نے وعدہ کرلیا کہ ٹھیک ہے آپ کی ملاقات کرادی جائے گی۔
حکومتی وفد نے یہ تاثر دینے کے لیے کہ ہم آپ سے زیادہ باختیار ہیں ملاقات کرانے کا وعدہ کرلیا لیکن وہ پھنس گئے کہ عمران خان شہباز شریف کے قیدی تو ہیں نہیں کہ ان کی ن لیگ کے ترجمان نے ملاقات کرانے کا وعدہ کرلیا۔ ایک دو روز تو ٹال مٹول میں گزر گئے پھر سرکاری مذاکراتی ٹیم کی اس وقت سانسیں بحال ہوئیں جب عمران خان کا ایک متنازع ٹویٹ آگیا جس میں انہوں نے شہباز شریف کو آرمی چیف کا اردلی کہہ دیا۔ بس حکومت کو یہ ایک بہانہ مل گیا ورنہ تو ان کے ہاتھ پائوں پھول رہے تھے کہ ہم نے وعدہ کرلیا ہے لیکن اڈیالہ جیل کے حکام کسی اور کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔
مذاکرات کے حوالے سے ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریق دل سے تو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس التوا کا الزام ہم پر نہ آئے بلکہ کچھ ایسی بات کی جائے کہ سامنے والے کو موردِ الزام ٹھیرایا جائے۔ اس لیے دونوں فریق اسے بے دلی سے جاری بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈران کرام یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری جیل میں خان سے ملاقات نہیں کرائی گئی تو ہم سمجھیں گے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے اس لیے ہم خود مذاکرات ختم کردیں گے۔ دوسری طرف حکومتی ارکان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ملاقات کرانے سے انکار نہیں کیا یہ آج کل میں ہو جائے گی پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم میں آپس میں بھی اختلافات ہیں اور یہ سب خان سے خوف زدہ بھی ہیں ان سے پوچھے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹیم یہ چاہتی ہے کہ ہم سب خان سے ملاقات کرکے تحریری مطالبات کی اجازت لے لیں۔ لیکن وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری یہ ملاقات آزاد ماحول میں کسی کھلی جگہ پر ہو جہاں کوئی کیمرہ ہو نہ کوئی خفیہ ایجنسی کا فرد ہو اور وقت کی پابندی کی جائے کہ یہ پابندی دو طرح سے ہو کہ جو وقت ملاقات کا دیا جائے اس وقت پر ہمیں اندر بلالیا جائے ہمیں گھنٹوں باہر دھوپ میں کھڑا رہنا پڑتا ہے، بیٹھنے کے لیے کوئی بینچ وغیرہ بھی نہیں ہوتی دوسری پابندی یہ کہ اگر ایک گھنٹے کا وقت ہے تو یہ پورا کیا جائے نہ کہ آدھے گھنٹے بعد ہی کوئی اہلکار آکر یہ کہہ دے کہ بس اب ملاقات کا وقت ختم ہوگیا اوپر سے آرڈر آیا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی ٹیم حکومتی ٹیم پر الزام لگاتی ہے کہ یہ اتنے بے اختیار ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے پوچھے بغیر ایک کاغذ بھی اِدھر سے اُدھر نہیں کرسکتے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ مذاکرات ہمیشہ با اختیار لوگ کرتے ہیں انہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ ہمیں اپنے باس سے پوچھنا ہے۔ ہمارے سامنے 1977میں پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات کا نقشہ ہے کہ دونوں طرف کی ٹاپ لیڈر شپ مذاکرات میں شریک تھی تاکہ جو بھی گفتگو ہو اس میں کوئی فیصلہ کرنے میں کسی اور سے پوچھ گچھ کا مسئلہ نہ ہو اس لیے بھٹو صاحب ہی پی این اے کو دینے کی پوزیشن میں تھے۔ دوسری طرف پی این اے کی ٹیم میں اتحاد کے صدر مفتی محمود نائب صدر نواب زادہ نصراللہ خان اور جنرل سیکرٹری پروفیسر عبدالغفور تھے جو خود فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے بس انہوں نے دو، ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے لیے وقت مانگا تھا جو انہیں دے دیا گیا تھا۔
اس مذاکرات کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ بھٹو نے پاکستان قومی اتحاد کی ٹیم سے یہ نہیں کہا کہ آپ اپنے مطالبات تحریر میں دیں ہاں یہ بات ضرور ہوئی کہ معاہدے میں جو نکات طے ہوئے اسے تحریر میں لے آیا گیا تھا۔ یہاں پر حکومتی ٹیم نے تحریر کا مطالبہ اس لیے کیا کہ انہیں خان پر کوئی بھروسا نہیں کہ پتا نہیں کب یہ یوٹرن لے لیں اور سارا کھیل بگڑ جائے ہم نے 27 دسمبر 2024 کو ایک مضمون ’’مذاکرات کتنا خلوص کتنی مجبوری‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا آخر میں اس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
’’مذاکرات شروع ہونے کے حوالے سے دونوں طرف کی مجبوریوں کا تو ذکر تو ہوگیا۔ دونوں طرف کی کمیٹیاں کتنی مجبور ہیں یا کتنی پابند ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تو بعد میں ہوگا یہ دونوں کمیٹیاں فیصلے کرنے یا کسی نتیجے پر پہنچنے میں آزاد نہیں ہیں۔ تحریک انصاف عمران خان کی اجازت کے بغیر خود کسی قسم کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسی طرح حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اسٹیبلشمنٹ کی اجازت کے بغیر خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اس طرح ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مذاکرات بالواسطہ طور پر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہورہے ہیں۔ دونوں کمیٹیوں کے ارکان بااختیار نہیں ہیں بلکہ بااختیار سرپرستوں کے بے اختیار نمائندے ہیں‘‘۔