برطانیہ میں نسلی تعصب اور اسلامو فوبیا!

220

وزارت خارجہ کے ترجمان نے برطانیہ میں نسل پرستانہ اور اسلامو فوبیا پر مبنی بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کی دوستی گرم جوشی، خوشگوار تعلقات، مضبوط تعاون اور اعتماد پر مبنی ہے، ہم برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستانہ اور اسلامو فوبیا پر مبنی سیاسی اور میڈیا تبصروں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں جس کا مقصد چند افراد کے قابل مذمت اقدامات کو پورے 1.7 ملین برطانوی پاکستانی تارکین وطن سے جوڑنا ہے۔ ادھر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے ایلون مسک کے اسلامو فوبیا پر مبنی بیانات پر سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایلون مسک مسلسل اسلامو فوبیا پر مبنی مہم چلا رہے ہیں، یہ ایک گروہ ہے جس میں دوسرے ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ایلون مسک اور ان سے جڑا گروہ اپنے مذموم مقاصد کو صرف اور صرف پاکستان اور اسلام سے جوڑ رہے ہیں جو کہ ان کی نسل پرستانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا بیان سوشل میڈیا پر اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے کی منظم مہم کا حصہ ہے۔ برطانوی حکومت کو اسلامو فوبیا پر مشتمل نفرت انگیز مہم روکنے کے لیے ایکشن لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج برطانیہ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور جس طرح مختلف حلقوں کی جانب سے نسل پرستانہ خیالات کا اظہار، مسلم کمیونٹی سینٹرز کی توڑ پھوڑ، مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا گیا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ رونما ہونے والی اس پوری صورتحال کا آغاز اس وقت ہوا جب جولائی 2023 میں برطانیہ کے ساؤتھ پورٹ میں تین کم عمر بچیوں کو قتل کردیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جاتیں، اس بہیمانہ قتل کے پیچھے ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا مگر قبل اس کے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت کرتے واقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نسل پرست گرہوں نے مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کردیا، سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر غلط اور بے بنیاد اطلاعات پھیلائی گئیں، یہاں تک کہا گیا کہ قتل کرنے والے کا تعلق پاکستان سے ہے، قاتل دہشت گردوں کے گروہ سے ہے، اس گمراہ کن پروپیگنڈے کے نتیجے میں برطانیہ کے متعدد شہروں اور شمالی آئر لینڈ میں فسادات پھوٹ پڑے، لیورپول، برسٹل، ہل اور سٹوک آن ٹرینٹ سمیت ملک بھر کے شہروں کے ساتھ ساتھ بلیک پول شہر میں پرتشدد افراتفری پھیل گئی۔ ان واقعات میں مسلمانوں کی دکانوں، کاروباری مراکز میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی گئی، لیور پول میں لائبریری کوآگ لگائی گئی۔ مسلمانوں پر گرومنگ گینگز میں ملوث ہونے کے قبیح الزامات لگائے گئے المیہ یہ ہے کہ جس واقعے پر اتنا ہنگامہ برپا کیا گیا کہ برطانیہ میں مقیم مسلمان عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہو گئے لندن کے میئر صادق خان تک کو کہنا پڑا کہ میں برطانیہ میں بطور مسلم سیاستدان کے خود کو محفوظ نہیں سمجھتا، اس کی حقیقت یہ نکلی کہ قتل کے الزام میں ملوث فرد برطانیہ میں پیدا ہوا اور مسیحی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 9/11 کے بعد ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو مجروح کرنے اور تعصب برتنے کا کھیل جاری ہے، اور گزرتے وقت کے ساتھ اس میں تیزی آرہی ہے، برطانیہ میں بھی مسلمانوں کو دہشت گردوں سے نتھی کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اسلامو فوبیا میں بھی اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والی حالیہ صورتحال کو محض کسی ایک واقعہ کا ردعمل اور سوشل میڈیا کا منفی پروپیگنڈا کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مغرب میں ایک منظم سازش اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام ومسلم دشمنی پر مبنی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ کبھی ناروے میں قرآن مجید جلایا جاتا ہے، کبھی گستاخانہ ٹوئٹس کیے جاتے ہیں، کبھی فرانس کی سرکاری عمارتوں پر گستاخانہ خاکے آویزاں کیے جاتے ہیں، کبھی سوئیڈن میں مسجد اور قرآن کی بے حرمتی کی جاتی ہے، کبھی ڈنمارک میں قرآن جلانے کی اجازت دی جاتی ہے، کبھی نیوزی لینڈ کی مسجد کے باہر فائرنگ کر کے مسلمانوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے، کبھی کینیڈا میں نمازی پر گاڑی چڑھا دی جاتی ہے، کبھی گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کرائے جاتے ہیں اور کبھی امریکا میں امام مسجد کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور مسلسل ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے باہمی منافرت بڑھے اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسلاموفوبیا کو ایک جرم تسلیم کرتے ہوئے ہر سال 15 مارچ کو ’’اسلامو فوبیا ڈے‘‘ منانے کی قرارداد منظور کی، مگر یورپ آج بھی اسلامو فوبیا کا شکار ہے وہ اسے جرم سمجھنے کے لیے کسی طور تیار نہیں بلکہ اس کا سارا طرز عمل اس امر کا غماض ہے کہ وہ اسے جرم کے بجائے ثواب سمجھتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ٹیکنالوجی کے بے تاج بادشاہ ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر جلتی پر تیل کا کام کیا، انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر گرومنگ گینگز کو مسلمانوں کا مسئلہ قراردے کر اسلام مخالف جذبات کی لہر کو پھونک پھونک کر مزید ہوا دی، اور ساتھ ہی ساتھ برطانوی سیاست دانوں بالخصوص کیئر اسٹارمر اور جیس فلپس پر ریپ جینو سائیڈ کی حمایت کے الزامات عائد کر کے انہیں برطانیہ میں ریپ کے سہولت کارقرار دیا، یہ طرز عمل قطعاً ان کے شایان شان نہیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی خدمات اور تخلیقی صلاحیتوں کا کون انکار کرسکتا ہے، وہ کئی کمپنیوں کے بانی، مالک، اور لیڈر ہیں، اور ان کے کارنامے ٹیکنالوجی، توانائی، خلائی تحقیق، اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں نمایاں ہیں، وہ ایک جہانِ نو تخلیق کر رہے ہیں دنیا میں بعض افراد کے لیے وہ رول ماڈل بھی ہیں، وہ مریخ کو بھی تسخیرکر کے وہاں انسانی کالونیاں بنانے کی آرزو بھی اپنے سینے میں رکھتے ہیں، مگر اس نوع کے بیانات سے وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ کیا مریخ جانے کی اجازت بھی وہ رنگ، نسل اور مذہب دیکھ کر دیں گے؟ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تعصب کی اس مسموم فضامیں تو ٹیکنالوجی پھل پھول نہیں سکتی، ٹیکنالوجی انسانیت کی فلاح کے لیے ہوتی ہے، انسانی اقدار اور ثقافتی ہم آہنگی کو مسمار کرکے محض ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تخلیق کی جانے والی دنیا زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی۔ برطانیہ میں نسل پرستانہ سیاسی بیانات اور اسلامو فوبیا کی لہرکو اگر فوری طور پر روکنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو مختلف نسلی و مذہبی گروہوں کے درمیان اختلاف اور کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا جس سے مختلف کمیونیٹیز کے درمیان پائی جانے والی ثقافتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پوری صورتحال کا از سر نو جائزہ لیا جائے، ایسے عملی، ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں جن سے نسلی تعصب کا خاتمہ ہو، اس کے ساتھ ساتھ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پھیلائی جانے والی افواہ سازیوں اور کذب بیانیوں کا بھی نوٹس لینا چاہیے، آزادیِ اظہار رائے اور شخصی آزادی کا کوئی بھی مخالف نہیں ہو سکتا، مگر ایک حد سے بڑھی ہوئی آزادی، آزادی نہیں رہتی انارکی بن جاتی ہے۔