مسلم ہیروز پر تنقید کرنے والے وزرا؟

224

ہر ملک اور قوم کے کچھ ’’قومی ہیروز‘‘ ہوتے ہیں، جس پر وہ قومیں اور اُن کا ملک فخر کرتا ہے، اِسی طرح سے ہمارے بھی کچھ قومی ہیروز ہیں کہ جن کا ذِکر اکثر و بیش تر ہماری زبان پر رہتا ہے تاہم ’’مسلم ہیروز‘‘ کی شان نرالی ہے کیونکہ وہ تمام اُمت مسلمہ کے ہیروز ہیں کہ جن پر مسلمانوں کو ہمیشہ ناز رہا۔ محمد بن قاسمؒ، طارق بن زیادؒ، موسیٰ بن نصیرؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان محمود غزنویؒ اور ٹیپو سلطان شہید انہی ہیروز کی فہرست میں شامل ہیں کہ جو نہ صرف ہماری تاریخ کا سنہری باب ہیں بلکہ ہماری دعائوں اور یادوں میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔

اسلام دشمن قوتوں کے مفکرین اور دانشوروں نے اُمت مسلمہ کی اُس قوت، طاقت اور شان کو ہمیشہ توڑنے اور نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے کہ جن کے حوالے سے ہم چٹانوں سے ٹکرانے سمیت صحرائوں اور دریائوں کو عبور کرنے کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں۔ تاریخ ہر قوم کا ماضی اور مستقبل کا راستہ ہے، تاریخ سے گہرا تعلق قوموں کی حفاظت کی ضمانت ہوتا ہے۔ مگر جب صورتحال یہ بن جائے کہ تاریخ کی حفاظت کرنے والے خود ہی اپنی تاریخ کو مسخ کرنے یا یہ کہ اُس میں جھوٹ اور دروغ گوئی کو شامل کرنے لگ جائیں تو پھر یقینا ایسی تاریخ قوموں کی حفاظت اور رہنمائی کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ مسلم سلاطین کی بہادری اور مذہبی رواداری کو جہاں غیر مسلموں نے متنازع بنانے کی کوشش کی ہے وہیں پر بعض نام نہاد مسلم دانشور بھی اس گناہ کبیرہ کا حصہ ہیں۔

چند روز پہلے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا بیان نظر سے گزرا جس میں وزیر موصوف مسلم ہیروز سلطان محمود غزنویؒ کو لٹیرا کہہ رہے ہیں۔ محمود غزنویؒ جس کا تعلق افغان سرزمین سے تھا وہ ایک بہادر اور انصاف پسند سلطان تھا تاہم بعض ہندو انتہا پسند اسلام دشمنی کی وجہ سے سلطان محمود غزنویؒ کو لٹیرا قرار دے رہے ہیں کیونکہ اِن ہندو دہشت گردوں کو بابری مسجد سمیت ہندوستان کے سینہ پر کوئی مسجد، کسی بزرگ کا مزار یا یہ کہ مسلمان کا وجود برداشت نہیں۔ یہ دوست ہے کہ سلطانی محمود غزنویؒ نے ہندوستانی پر 17 حملے کیے اور 1026 میں ’’سومناتھ کے مندر‘‘ پر حملہ آور ہوا مگر اُس وقت کے بعض تاریخ دان کہ جن میں خود ہندو بھی شامل ہیں وہ ہندوستانی کی سرزمین اور بالخصوص سومناتھ کے اردگرد مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کو بھی اِس حملے کا ایک سبب جانتے ہیں۔ ہندوستان ایک ملک نہیں بلکہ خطہ تھا کہ جہاں مختلف راجے اور مہاراجے حاکم تھے جن کے ظلم، تشدد اور ناانصافی سے خود ان کے اپنے ہم مذہب بھی محفوظ نہیں تھے جس کا ایک ثبوت آج بھی ہے کہ ہندو ذہنیت کے حامل متعصب حکمرانوں نے بابری مسجد کو شہید کرکے رام مندر بنادیا اور 77 برسوں سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو زبردستی اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔

علاوہ ازیں ہمارے بزدل اور نالائق وزیر دفاع کو یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ وہ جس سلطان کو ڈاکو کہہ رہا ہے اُس کی بہادری اور انصاف پسندی کے اعتراف میں پاکستان کے میزائلوں کے نام رکھے جاچکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے وزیر دفاع کو محمود غزنویؒ کا دفاع کرنا چاہیے مگر یہ احمق وزیر دفاع ہندو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے لیے ’’سہولت کاری‘‘ کا کام کررہا ہے۔ خدشہ ہے کہ آگے چل کر خواجہ آصف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ پر بھی تنقید نہ شروع کردے۔

اِسی طرح سے چند روز پہلے سندھ کے وزیر تعلیم سردار علی شاہ کا بھی ایک بیان نظر سے گزرا۔ ’’یوتھ پارلیمنٹ‘‘ کے ایک پروگرام صوبائی وزیر تعلیم فرما رہے ہیں کہ ’’77 سال سے ہم عوام کو درست معلومات فراہم نہیں کررہے، محمد بن قاسم کے سندھ میں آنے کے معاملے کو بھی صاف کرنا ہوگا، وغیرہ وغیرہ‘‘۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ کا وزیر تعلیم بھی وفاقی وزیر داخلہ کی طرح اُلٹی سیدھی ہانک رہا ہے، شاید یہ دونوں وزرا صاحبان کسی کالج میں تاریخ کے طالب علم رہنے کے بجائے کتب میلوں میں شریک ہوتے رہے ہیں جہاں انہوں نے کتابوں کے عنوان تو پڑھے مگر کوئی کتاب پڑھنا نصیب نہیں ہوئی۔ بلاشبہ بعض قوم پرست محمد بن قاسمؒ کو ڈاکو اور راجا داہر کو ہیرو کہتے ہیں مگر یہ اُن قوم پرستوں کی بات ہے کہ جن کے نزدیک ’’مسلم ہیروز‘‘ کی تاریخ قابل نفرت ہے اور یہ کامریڈ راجا داہر کے ہاتھی کی دُم کے ساتھ لٹک کر سومناتھ کے مندر کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔

محمد بن قاسمؒ وہ عظیم سپہ سالار ہے کہ جس نے ایک ظالم اور متعصب ہندو راجا داہر کو شکست دے کر سندھ کو ’’باب الاسلام‘‘ اعزاز سے نوازا۔ یہ باب الاسلام ہی اُس پاکستان کی بنیاد ہے کہ جس کا آج سردار علی شاہ وزیر ہے کیونکہ سندھ اسمبلی نے ہی سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرار داد منظور کی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اُس پاکستان کی رونمائی کی کہ جس کی بنیاد صدیوں پہلے محمد بن قاسمؒ نے رکھی تھی۔ محمد بن قاسمؒ، سلطان محمود غزنویؒ کی طرح ایک بہادر اور انصاف پسند سپہ سالار تھا جس کی تعریف اور عقیدت میں خود ہندوئوں نے مندروں میں چراغ جلائے۔ محمد بن قاسمؒ نے سندھ کے اندر مذہبی رواداری کی بہترین مثال قائم کی۔ سلطان محمود غزنویؒ کی طرح مندروں اور اُن کی پوجا پاٹ کرنے والوں کی مذہبی آزادی کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ ان کی حفاظت بھی کی۔ یاد رہے کہ سلطان محمود غزنویؒ نے سومناتھ مندر میں موجود سب سے بڑے بُت کو تب توڑا جب ہندو پنڈتوں، پجاریوں اور مہاراجوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اب کی بار اگر سلطان محمود غزنویؒ ہندوستان میں داخل ہوا تو ہمارا یہ بُت دیوتا اُسے بھسم کرکے رکھ دے گا، لہٰذا اس طرح کی صورتحال کہ جب اہل باطل اپنے مُشرکانہ عقائد سے کسی مومن اور مجاہد کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے ہوتے تو پھر ایمان کا تقاضا ہے کہ آگے بڑھ کر حق کی گواہی دی جائے خواہ اس کے لیے تلوار ہی میان سے کیوں نہ نکالنی پڑ جائے۔ سلطان کا یہ جملہ جو انہوں نے سومناتھ کا بُت توڑتے وقت فرمایا تھا کہ ’’میں بُت فروش نہیں بت شکن ہوں‘‘ برصغیر کے مسلمانوں کی ہمیشہ رہنمائی کرتا رہے گا۔ بہرحال محمد بن قاسمؒ کی 712ء اور محمود غزنویؒ کی 1026ء میں ہندوستان پر یلغار زمینی حقائق اور عقیدے کی تعلیم سے مکمل ہم آہنگ اور درست تھی۔ ایک ہزار سال تک ہندوستان پر مسلمانوں کے اقتدار اور آج کے پاکستان کے پس منظر کو اگر دیکھا جائے تو اِس میں محمد بن قاسمؒ اور محمود غزنویؒ کی قربانیاں اور احسانات نظر آئیں گے۔

ٹیپو سلطان کی شخصیت بھی ہمہ جہت تھی وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا۔ اس کی سلطنت میں بھی مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا، گاندھی جی نے بھی ٹیپو سلطان کی مذہب رواداری کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اخبار کے 23 جنوری 1936ء کے شمارے میں لکھا کہ ’’ٹیپو سلطان نے مندروں کے لیے بڑی فیاضی کے ساتھ جائدادیں وقت کردیں ان کے محل کے چاروں طرف مندروں کی موجودگی سلطان کے وسیع النظری کا ثبوت ہے‘‘۔ سلطان ٹیپو انگریزوں کے خلاف مسلسل برسرپیکار رہا اور بالآخر میسور کی چوتھی جنگ میں انگریز فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے 4 مئی 1799ء کو شہادت پائی۔ سلطان کی شہادت کے بعد ہی انگریز کمانڈروں نے چیخ کر کہا کہ آج سے انڈیا ہمارا ہے اور پھر یہی ہوا کہ انگریز پورے ہندوستان پر قابض ہوگیا۔ ہندو یا ہندو نواز مسلم اور غیر مسلم دانشور اِن عظیم مسلم سلاطین اور ہیروز پر تنقید کرکے درحقیقت خود کو رسوا کررہے ہیں۔ تعصب اور بدنیتی پر مبنی ان کی زہر آلود گفتگو سے کوئی بھی غیر جانبدار اور حقیقت پسند شخص اپنی رائے نہیں بدلے گا اور نہ ہی تاریخ کے صفحات کو مٹایا جاسکتا ہے۔ ہم آخر میں وزیراعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف سے اپیل کرتے ہیں کہ ’’مسلم ہیروز‘‘ پر تنقید کرنے والے وزرا کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔

اللہ پاک ان تمام مسلم سلاطین اور مجاہدین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے کہ جنہوں نے مسلمانوں کی حفاظت اور دین اسلام کی عظمت کے لیے ’’جہاد‘‘ کیا۔ آمین یا رب العالمین