مالدیپ اور افغانستان میں بھارت کی واپسی؟

277

بھارت کو چند برس میں جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں سے نکلنا پڑا۔ ان میں افغانستان، مالدیپ اور بنگلا دیش نمایاں تھے۔ تینوں ملکوں سے بھارت کی رخصتی کے انداز جداگانہ اور وجوہات ایک جیسی تھیں۔ بھارت ان ملکوں اور معاشروں پر بالادست ہونا چاہتا تھا۔ جس کے ردعمل میں تینوں ملکوں میں بھارت کو جوتے چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ افغانستان میں طالبان کے عسکری غلبے کا دائرہ مکمل ہونے کے نتیجے میں بھارت کو اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کے دوست افغان حکمران اشرف غنی بھی اس بدلی ہوئی لہر میں بہہ گئے۔ مالدیپ میں صدر معیزو نے انتخابی مہم میں ’’انڈیا آؤٹ کا نعرہ‘‘ لگایا عوام نے انہیں بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا اور یوں بھارت کو مالدیپ میں اپنی فوجی موجودگی کو کم کرنا پڑا۔ تیسری بے دخلی بنگلا دیش میں ہوئی۔ یہ افغانستان کی طرح عسکری حکمت عملی کا باعث تھی نہ مالدیپ کی طرح انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ اور نہ ہی بنگلا دیش کی طرح عوامی تحریک کا ثمر تھا۔ جس میں شیخ حسینہ نے فارم سینتالیس ٹائپ الیکشن منعقد کروا کے اپنی طاقت کے قلعے کی فصلیں فلک بوس بنا دی تھیں۔ اپوزیشن جیلوں میں تھی۔ سیاسی مخالفین کوکینگرو کورٹس کے ذریعے پھانسیاں دلوا کر خوف ودہشت کی فضا قائم کی جا چکی تھی۔ جب عوامی جذبات کا پہیہ اُلٹا چل پڑا تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ گیا۔

بھارت نے مختصر مدت میں افغانستان اور مالدیپ میں اپنی واپسی کا سامان کرکے اس نقصان کا ازالہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جلد یا بدیر بنگلا دیش کے ساتھ بھی بھارت اپنے تعلقات کی دراڑوں کو بھرنے میں کامیاب ہوگا۔ دونوں کے درمیان انتظامی وجہ نزع شیخ حسینہ ہیں۔ یہ اختلاف اس قدر گہرا نہیں جتنا کہ طالبان کے ساتھ بھارت کے تعلقات معمول پر آنا ایک مشکل بلکہ ناممکن اور جان جوکھم کا کام تھا۔ بنگلا دیش میں پاکستان کو جو رسائی ملی ہے یہ دہائیوں بعد ملنے والی وہ اسپیس ہے جو اس کا جائز حصہ تھا اور بھارت اسے دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس سے زیادہ خواب اس تبدیلی سے وابستہ کرنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح افغانستان میں بھارت نے اپنی اسپیس واپس حاصل کرنا شروع کی ہے۔ مالدیپ کے وزیر دفاع محمد غسان مامون نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا ہے اس دوران ان کی وزیر دفاع راجناتھ سے ایک اہم ملاقات ہوئی ہے۔ جس میں دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی، صنعتی اور سمندری شراکت داری کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں نے مل کرکام کرنے کا پختہ عزم ظاہر کیا ہے۔ راجناتھ سنگھ نے کہا بھارت کی ’’سب سے پہلے پڑوسی‘‘ کی پالیسی میں مالدیب کا ایک اہم مقام ہے۔ یوں یہ بات واضح ہورہی ہے کہ مالدیپ کے عوام نے بھارت کو ووٹ کے ذریعے باہر کیا تو بھارت اس ملک کے عوام کی مجبوری بن کر واپس آگیا۔ اسی طرح دبئی میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور بھارتی خارجہ سیکرٹری وکرم مسری کی ملاقات نے بھی اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ بھارت افغانستان میں کہانی کا آغاز وہیں سے کرنے جا رہا ہے تھا جہاں وہ ادھوری رہ گئی تھی۔ اس ملاقات میں بھارت نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں میں بھرپور حصہ لے گا۔ اس سے دودن پہلے بھارت نے پاکستان کی طرف سے افغانستان میں ہونے والے حملوں کی مذمت کی تھی۔ بھارت کی کامیابیوں کو پاکستانی حیرت اور حسرت سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کامیابیوں کا تاج محل پاکستانیوں کو دکھائے جانے والے برسوں کے خوابوں کی راکھ پر ہے۔ ان کامیابیوں پر حیرت تو ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ اقبال فرماتے ہیں۔

نہ تھا اگر تو شریکِ محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میری عادت نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مۂ شبانہ

بھارت ترقی کا ایک زینہ چڑھتا ہے ہمیں نوے کی دہائی میں جنرل مرزا اسلم بیگ کا کوئی کالم جنرل حمید گل سے کسی انٹرویو یا ان کی کسی تقریر کا کوئی جملہ یاد آتا ہے۔ یہ سب کچھ خوبصورت خوابوں کا مرقع ہوا کرتے تھے۔ بھارت میں علٰیحدگی کی درجنوں تحریکوں کے تناظر میں ہمیں یقین دلایا گیا تھا اس کے نتیجے میں سب کچھ اُلٹ پُلٹ ہو کر رہ جائے گا۔ نوے کی دہائی مستقبل کے امکانات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے شروع ہونے والی میراتھن کی تیاریوں اور اس کے اصول طے کرنے کا زمانہ تھا۔ معیشت کی گاڑی کی سمت درست کرنے کا دور تھا۔ بھارت آج معاشی ترقی کی جس راہ پر گامزن ہے اس کی سمت کا تعین نوے کی دہائی میں ہو چکا تھا۔ نوے کی دہائی میں پاکستان سیاسی اور عسکری تجربات کی راہوں پر بھٹکتا رہا۔ عسکری تخلیق طالبان کو آخری آپشن جان کر اُبھارنے کی کوشش تھی تو سیاسی تجربے کا نام بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں کا ادل بدل کا کھیل تھا یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف خود کھیل کے میدان میں آدھمکے۔ حیرت کی بات یہ کہ جب بھی اس خطے میں امریکا کو کوئی جنگ لڑنا ہو تو اس سے پہلے پاکستان میں آمریت یا نیم آمرانہ نظام قائم ہوتا ہے۔ جیسا کہ افغانستان کا جہاد اپنے جلو میں جنرل ضیاء الحق جیسے مردمومن کو لایا۔ برسوں بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا مرحلہ آیا تو جنرل پرویز مشرف نے عزیز ہم وطنوں کا سلام ِمحبت کہہ دیا۔

یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر خوارج کے تعاقب پر لگا دیا گیا ہے اور موجودہ نظام کی سختی اور کرختگی یہی بتا رہی ہے کہ پاکستان کو ایک اور جنگ کی دلدل میں طویل مدت کے لیے دھنسنا ہے۔ پاکستان خوارج کے پیچھے بھاگتا رہے گا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک خونیں کھیل ہے جس میں دونوں طرف کا نقصان ہوتا رہے گا اور دہشت گردی پاکستان کے گلی کوچوں میں ڈیرے ڈالے رکھے گی۔ دہشت گردی کے ماحول میں نہ برآمدات بڑھتی ہیں نہ سیاحت کو فروغ ملتا ہے۔ اوپر سے جدید ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی بندش کا مائنڈ سیٹ رہی سہی معیشت کو برباد کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس ماحول کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ پاکسان کی معیشت کسی ٹھوس بنیاد پر کھڑی ہونے کا امکان نہیں اور پاکستانیوں کا مقدر برادر ملکوں کے قرضوں اور آئی ایم ایف کی قسطوں پر انحصار ہی رہے گا اور اس عرصے میں پاکستان کے پڑوسی نجانے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے؟۔ امریکا کے دہلی سے رخت سفر باندھنے والے سفیر ایرک گارسیٹی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکن ڈریم اور انڈین ڈریم حقیقت میں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ دونوں ملکوں کو لشکر، جیش اور داعش دہشت گرد تنظیموں کے خطرے کا سامنا ہے۔ ہمیں مل کر اس خطرے کا مقابلہ کرنا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے تارکین وطن کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی تارکین وطن 2047 تک ملک کو ترقیاتی یافتہ بنانے کے ویژن کا لازمی حصہ ہیں۔ ہم ہیں کہ اپنے بہترین پوٹینشل یعنی تارکین وطن کو ناراض، مایوس اور نالاں کیے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کو جس اسٹائل سے چلایا جا رہا ہے اس میں تارکین وطن کا اعتماد بحال ہونے کا دوردور تک امکان نہیں۔ خداجانے ہمیں کس نے اپنی ہی صورت بگاڑنے کے کام پر مامور رہنے کی بددعا تھی اور اب ہم اسی کام میں جُت کر رہ گئے ہیں۔