ان دنوں عالمی اخبارات میں جاپان کی سب سے بڑی اسٹیل کمپنی نیپون اسٹیل اور امریکا کی ایک اہم اسٹیل پروڈیوسر یو ایس اسٹیل کے تاریخی انضمام کے خلاف جو بائیڈن کی جانب سے لگائی گئی پابندی شہ سرخیوں میں جگہ پارہی ہے۔ دونوں کمپنیوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے حالیہ فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے، جس میں انہوں نے اس انضمام کو قومی سلامتی کے خدشات کی بنیاد پر روک دیا تھا۔ بائیڈن کے اس فیصلے نے نہ صرف دو بڑی اسٹیل کمپنیوں کی قسمت کو داؤ پر لگا دیا ہے بلکہ جاپان اور امریکا کے اقتصادی تعلقات کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ نیپون اسٹیل اور یو ایس اسٹیل نے اپنے انضمام کے لیے 14.1 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا، جس کا مقصد دونوں کمپنیوں کی عالمی اسٹیل مارکیٹ میں پوزیشن کو مزید مستحکم کرنا تھا۔ تاہم، بائیڈن کی حکومت نے اس معاہدے کو روکتے ہوئے کہا کہ اس سے امریکا کی اہم اسٹیل فراہمی اور دفاعی ضروریات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ بائیڈن کے فیصلے کے بعد دونوں کمپنیوں نے امریکا کی عدالتوں میں دو مختلف مقدمات دائر کیے ہیں، جن کا مقصد اس فیصلے کو منسوخ کرنا ہے۔
امریکی صدر کا فیصلہ بظاہر قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اس انضمام سے امریکا کی اسٹیل سپلائی چینز کو خطرہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر وہ صنعتیں جو امریکا کے دفاعی شعبے کے لیے اہم ہیں۔ لیکن نیپون اسٹیل اور یو ایس اسٹیل نے اس فیصلے کو سیاسی قرار دیا ہے، اور دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ بائیڈن نے فیصلہ اس لیے کیا تاکہ یونائیٹڈ اسٹیل ورکرز یونین (یو ایس ڈبلیو یو) جیسے سیاسی اتحادیوں کو خوش کیا جا سکے۔ یو ایس ڈبلیو یو، جو ڈیموکریٹک پارٹی کا اہم حامی ہے، نے اس انضمام کی مخالفت کی تھی، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس سے امریکی ملازمتوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یونین کا موقف تھا کہ اس انضمام سے امریکی اسٹیل صنعت کو نقصان پہنچے گا اور نوکریوں میں کمی ہو گی۔ بائیڈن کی حمایت میں یہ یونین ایک اہم طاقت سمجھی جاتی ہے، اور اس کے اثر رسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نیپون اسٹیل اور یو ایس اسٹیل نے بائیڈن کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے دو مقدمات دائر کیے ہیں۔ پہلا مقدمہ امریکی عدالت برائے اپیلز میں دائر کیا گیا، جہاں ان کمپنیوں نے کہا کہ بائیڈن کا فیصلہ قانونی طور پر بے بنیاد ہے اور اس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انضمام سے امریکا کی اسٹیل صنعت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ یہ معاہدہ امریکی معیشت کو مزید مستحکم کرے گا۔
دوسرا مقدمہ کلیولینڈ کلفس انکارپوریٹڈ اور اس کے سی ای او لورینسو گونکالوس کے خلاف پنسلوانیا کی عدالت میں دائر کیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ کلیولینڈ کلفس اور یو ایس ڈبلیو یو نے سازباز کی تاکہ وہ کسی بھی قیمت پر یو ایس اسٹیل کو اپنے قبضے میں کر لیں، اور اس راستے میں نیپون اسٹیل کے انضمام کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں۔ دوسری جانب جاپانی حکومت نے بھی بائیڈن کے فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا نے اس فیصلے کو ’’انتہائی افسوسناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ جاپان کے حکومتی عہدیداروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بائیڈن کا فیصلہ جاپانی سرمایہ کاری کے لیے ایک بری نظیر قائم کر رہا ہے، جس سے دوسرے ممالک میں جاپانی کمپنیوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
وزیر خارجہ تاکیوشی ایویا نے بھی بائیڈن کے فیصلے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جاپان اور امریکا کے درمیان کاروباری تعلقات میں اعتماد کا فقدان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی تعلقات دوطرفہ تعلقات کی بنیاد ہیں، اور اس فیصلے سے دونوں ملکوں کے درمیان سرمایہ کاری کے لیے ایک غیر یقینی ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ اس فیصلے میں ایک اور اہم پہلو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف ہے۔ ٹرمپ نے بائیڈن کے فیصلے پر کھل کر تنقید کی اور کہا کہ یو ایس اسٹیل کو آزادانہ طور پر رہنے دینا چاہیے کیونکہ وہ موجودہ ٹیر فیس کی بنا پر زیادہ منافع بخش ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ یو ایس اسٹیل کو دوبارہ اپنا سابقہ مقام حاصل کرنے کے لیے آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے، نہ کہ اسے جاپان کی کمپنی کے ہاتھوں میں دے دیا جائے۔
یہ موقف ظاہر کرتا ہے کہ امریکا میں مزدور یونینز اور پولیٹیکل انٹرسٹس کس طرح اہم کاروباری فیصلوں کو متاثر کر تے ہیں۔ ٹرمپ کے نزدیک یہ معاہدہ امریکی اسٹیل کمپنی کے لیے فائدہ مند ہو سکتا تھا، جبکہ بائیڈن کا موقف تھا کہ اسے روکا جانا چاہیے تاکہ امریکی صنعت کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ اس فیصلے سے جاپان، امریکا اقتصادی تعلقات پر بھی طویل المدتی اثرات پڑنے کے واضح امکانات نظر آتے ہیں۔ نیپون اسٹیل اور یو ایس اسٹیل کا انضمام محض ایک کاروباری معاہدہ نہیں تھا، بلکہ اس نے جاپان اور امریکا کے اقتصادی تعلقات کے مستقبل کو بھی متاثر کیا ہے۔ اگر نیپون اسٹیل اور یو ایس اسٹیل کی قانونی جنگ کامیاب نہیں ہوتی تو یہ امریکا میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی پالیسی پر ایک سنگین سوالیہ نشان چھوڑے گا۔ اگر اس معاہدے کو منسوخ کر دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مستقبل میں دیگر جاپانی کمپنیاں امریکا میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گی۔
خاص طور پر اگر انضمام کی نوعیت حساس شعبوں سے متعلق ہو۔ اس فیصلے نے امریکا اور جاپان کے تجارتی تعلقات میں ایک نیا تناؤ پیدا کر دیا ہے، جو آنے والے برسوں تک دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔اس تمام صورتحال میں دونوں ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عالمی سطح پر تجارتی تعلقات کی ترقی کے لیے ایک قابل اعتماد اور مستحکم کاروباری ماحول کا ہونا ضروری ہے، جہاں سرمایہ کار سیاسی دباؤ اور غیر ضروری رکاوٹوں سے آزاد ہو کر اپنے فیصلے کر سکیں۔