محنت کشوں کا نوحہ

103

سندھ کے تمام صنعتی علاقوں میں محنت کشوں کو کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ادا نہیں کیے جا رہے۔ اسی طرح حیدرآباد میں قائم بسکٹ فیکٹریاں، فوڈ انڈسٹری، بیکری مالکان، دال مل فیکٹری، موٹرسائیکل فیکٹری اور دیگر شاپنگ سینٹروں کے محنت کشوں کو کم از کم اجرت کے قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی بے حسی کی انتہا ہے کہ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرنے کے لیے لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے لیکن انتہائی دُکھ
کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ کم از کم اجرت کے قانون 37ہزار روپے کوئی ادارہ دینے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے موجودہ شدید مہنگائی کے دور میں محنت کشوں کا دو وقت کا کھانا بھی بمشکل پورا ہو رہا ہے، بعض گھروں میں تو فاقہ کشی کی نوبت ہے، بچے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے گھر وں پر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اسکولوں کی فیسیں اتنی بھاری ہیں کہ محنت
کشوں کو ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بیماری میں بھی علاج معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوشل سیکورٹی محنت کشوں کو علاج معالجہ کی سہولیات دینے کے بجائے افسران اور ڈاکٹر ز کا عملہ ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے کاہلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کا محنت کش موجودہ حکومت کی محنت کش دشمن پالیسیوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے۔ NLFسندھ مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر سندھ کے تمام محنت کشوں کو اور تمام پرائیوٹ کارخانوں، شاپنگ سینٹروں، پرائیوٹ اسکولوں، دال ملز، موٹر سائیکل فیکٹریوں اور تمام ادارے میں کم از کم اجرت کے قانون پر فوری عمل کروانے میں لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کردار ادا کرے اور جو ادارہ لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ کرے ان کے چالان لیبر کورٹ میں پیش کیے جائیں تا کہ مالکان کو لیبر قوانین کا علم ہو سکے جب تک جزا اور سزا کا عمل نہیں ہوگا اس وقت تک مالکان محنت کشوں کو حقوق نہیں دیں گے۔