بجلی سستی نہ کرنے کی وجہ حکومت کا غیر سنجیحدہ رویہ ہے،زبانی جمع خرچ کررہی ہے

146

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) بجلی سستی نہ کرنے کی وجہ حکومت کا غیرسنجیدہ رویہ ہے،زبانی جمع خرچ کر رہی ہے‘جماعت اسلامی نے آئی پی پیز، مہنگی بجلی اور ٹیکسز کیخلاف گزشتہ سال راولپنڈی میں 14 روز تک دھرنا دیا‘ 8 اگست کوحکومت کیساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کیا ‘ حکومت 1100ارب کی بچت کو2.4 ٹریلین کا گردشی قرضہ اتار نے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ان خیالا ت کا اظہار وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری‘ جماعت اسلامی پاکستان کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، مذاکراتی کمیٹی کے رکن و ماہر توانائی انجینئر سید فراست شاہ ‘ سابق نگراں وفاقی وزیر توانائی، معروف تاجر گوہر اعجاز‘ سرپرست اعلیٰ یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی)، سابق نگراں صوبائی وزیر برائے صنعت، تجارت و توانائی ایس ایم تنویر
اور جماعت اسلامی کراچی پبلک ایڈ کمیٹی کے نائب صدر و چیئرمین شعبہ امور توانائی عمران شاہد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’حکومت آئی پی پیز سے کامیاب مذاکرات کے باوجود ابھی تک بجلی سستی کیوں نہیں کرسکی؟‘‘ سردار اویس احمد خان لغاری کا کہنا ہے کہ آ پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد اچھی بچت ہوگی ، بجلی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور مزید کم ہوں گی، مزید 15 آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی معاہدے وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں لیکر جا رہے ہیں‘ اب تک 1100 ارب روپے کی بچت کر چکے ہیں، آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات میں اب حکومتی پاور پلانٹس کی باری ہے‘ تمام آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے گی، نظر ثانی کے بعد عوام کو بہت اچھی بچت ہو گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کے الیکٹرک نے ملٹی ائر ٹیرف کی مد میں بہت بڑی رقم مانگی ہے، میرے خیال میں یہ ملٹی ائر ٹیرف اتنا نہیں بنتا، بہت کم ہونا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیپرا عوام کا مفاد مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا‘ بجلی کے گردشی قرض کو کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے، لائن لاسز پر کنٹرول کے لیے بھی کوششیں کی جارہی ہیں‘ ہم چاہتے ہیں اگلے 4 سال میں توانائی کا شعبہ بحران سے نکل آئے۔سید فراست شاہ کا کہنا تھا کہ آپ کا یہ سوال تو حکومت سے کرنا بنتا ہے اور ہم بھی یہ سوال ان سے کر رہے ہوتے ہیں کہ مذاکرات کے باوجود ابھی تک بجلی سستی کیوں نہیں ہو رہی ہے‘ عوام کو اس کا فائدہ کیوں نہیںپہنچ رہا ہے، اس کا سادہ ساجواب تو یہ ہے کہ جو پیسے وہاں سے بچ رہے ہیں اس کو کہیں اور استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ کون سی مدیں ہیں جس میں یہ پیسے جا رہے ہیں اس کا ابھی تک ہمیں اندازہ نہیں ہے لیکن اس سلسلے میں17جنوری کو احتجاجکی کال دی گئی ہے‘ یہ معاہدے کا حصہ تھا کہ جو بھی رقم انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے معاہدے ختم کرنے سے بچے گی‘انہیں بجلی کے بلوں میں کمی کی طرف منتقل کیا جائے گا یا تو یہ ہے کہ ان کو پیسے ملے ہی نہیں ہیں وفاقی وزیر ایسی ہی کہہ رہے ہیں اور جب یہ کہہ رہے ہیں تو پھر ان سے پوچھنا چاہیے کہ اگر پیسے ملے ہیں تو وہ کہاں گئے ہیں یہ سوال ہے ۔ گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ ملک میں موجود بجلی کے کارخانے محض 40 خاندانوں کی ملکیت ہیں‘ بجلی کے بلوں پر گھروں میں لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں‘ لوگوں کی پریشانی غصے میں بدل رہی ہے‘ ہر صارف آئی پی پیز سے بددیانت معاہدوں پر فی یونٹ24 روپے اضافی دینے پر مجبور ہے‘ یہ قومی ا لمیہ نہیں تو اورکیا ہے کہ حکومت آئی پی پیز سے مذاکرات کے باوجود ابھی تک عوام کو سستی بجلی کی سہولت فراہم نہیں کر سکی ہے‘ ماضی میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) معاہدوں کی وجہ سے 24 کروڑ افراد سے سالانہ 2 ہزار ارب روپے کی رقم وصول کی گئی‘ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی تک ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ، بجلی کے ان نرخوں پر انڈسٹری چل سکتی ہے نہ گھریلو صارفین بل دے سکتے ہیں، بند بجلی گھروں کو 2 ہزار ارب سالانہ ادائیگی کے ذمہ دارکون ہیں قوم کو بتایا جائے۔ایس ایم تنویر نے بجلی کی بے تحاشا بڑھی ہوئی قیمت کی وجہ سے مختلف صنعتی شعبوں میں بڑے پیمانے پر بندش کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا ہے‘ اگر حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے حوالے سے بروقت کارروائی نہ کی گئی تو بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافہ مزید شہری بدامنی اور تاجر برادری میں عدم اطمینان کو جنم دے گا۔ ایس ایم تنویر نے امید ظاہر کی کہ وفاقی حکومت جلد ہی آئی پی پیز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی وضع کرے گی‘ آئی پی پیز کو 20 کھرب روپے کے کپسٹی چارجز کی ادائیگیوں نے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا ہے۔عمران شاہد نے کہا کہ جماعت اسلامی نے آئی پی پیز، مہنگی بجلی اور ٹیکسز کے خلاف 26 جولائی کو راولپنڈی میں 14 روز تک دھرنا دیا‘ 8 اگست کو حکومت کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنے کو ختم کیا جبکہ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ اگر معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو ہم دوبارہ دھرنا دیںگے، معاہدے کے مطابق حکومت نے ایک ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا تھا اس کا بنیادی مقصد 30 دن میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں نظر ثانی اور 45 دن میں بجلی سستی کرنا تھا‘ 5 ماہ سے زاید عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حکومت معاہدے کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ کرسکی جبکہ حکومت اور وفاقی وزیر برائے بجلی اویس لغاری آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی معاہدوں اور اس کے نتیجے میں 1100 ارب روپے کی بچت کے صرف اعلانات ہی کر رہے ہیں‘ حیرت انگیز طور پر جب نیپرا سماعت کے دوران میں نے چیئرمین نیپرا وسیم مختار جو کہ خود ٹاسک فورس کے ممبر بھی ہیں، سے سوال کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے 5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں411 ارب روپے کی بچت اور71 پیسے فی یونٹ بجلی کے ٹیرف میں کمی ہوگی جبکہ باقی آئی پی پیز اور حکومتی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں نظرثانی کے بعد 10 سے 12 روپے فی یونٹ بجلی کے ٹیرف میں کمی ہوگی۔ اس کے جواب میں نیپرا چیئرمین وسیم مختار نے کہا کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے‘ ہم بھی آپ کی طرح میڈیا رپورٹس اور اخبارات کے ذریعے ہی پتا چلا ہے‘ وفاقی حکومت کے جماعت اسلامی کے ساتھ معاہدے کو 5 ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔ وفاقی حکومت کی ٹاسک فورس جسے آئی پی پیز کے ساتھ ملکر معاہدوں میں نظرثانی کرکے 45 دن میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنی تھی، یہ ٹاسک فورس ابھی تک تمام آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں نظرثانی کرانے میں ناکام رہی ہے‘ وفاقی حکومت اب تک ہونے والے نظر ثانی معاہدوں سے بچت کو بجلی کی قیمت میں کمی کے بجائے اس کو حکومتی مصارف میں خرچ کرے گی اور اس کے لیے وہ آئی ایم ایف کا سہارا لیکر اس کے پیچھے چھپے گی۔ وفاقی حکومت کا بیانیہ یہ ہوگا کہ کیونکہ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.4 ٹریلین روپے سے زیادہ ہوگیا ہے اور آئی ایم ایف اس گردشی قرضے کو ختم کیے بغیر بجلی کی قیمتوں میں کمی کی اجازت نہیں دے رہا جبکہ آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی معاہدوں سے ہونے والی 1100 ارب روپے کی بچت کو ہم گردشی قرضہ اتارنے کے استعمال کریں گے جبکہ اگر وفاقی حکومت جماعت اسلامی کے ساتھ معاہدے کی پاسداری اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ فوراً ہی5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کو ختم کرنے کے بعد بجلی ٹیرف میں کمی کی منظوری کے لیے اس کو نیپرا میں سماعت کے لیے مقرر کراتی‘ حکومت زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی ہے۔