اقبال اور پاکستانی جرنیلوں کا تصورِ انسان

279

انسانی معاشرے کے لیے تصورِ انسان کی اہمیت بنیادی ہے۔ اس لیے کہ جیسا جس معاشرے کا تصور انسان ہوتا ہے معاشرہ اور ریاست ویسی ہی ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی معاشرے کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان اس زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ خود کو خلیفۃُ الرسول کہا کرتے تھے۔ ہمارے علما نے کہا ہے کہ انسان فرشتوں سے بھی بہتر ہے۔ ہمارے صوفیا نے فرمایا ہے کہ انسان اس پوری کائنات کا خلاصہ ہے۔ ہمارے خارج میں موجود ’’کائنات‘‘ کائناتِ اکبر ہے اور انسان ’’کائناتِ اصغر‘‘ اس تصورِ انسان کا اثر ہماری شاعری پر بھی پڑا ہے۔ استاد ذوق کا بے مثال شعر ہے۔

بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے
وگرنہ قندیل عرش پر بھی اس کے زرے کی روشنی ہے

حالی نے کہا ہے۔

فرشتے سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

ایک اور شعر ہے۔

فرشتہ مجھ کو کہنے سے مری توہین ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو

تصورِ انسان کی بحث ہو اور اقبال نہ یاد آئیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اقبال بیسویں صدی کے عظیم ترین عبقریوں میں سے ایک تھے۔ اقبال نے جس معاشرے اور جس ریاست کا خواب دیکھا تھا اس کا تصورِ انسان اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ تھا۔ ذرا دیکھیے تو اقبال مرد مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے کیا فرما رہے ہیں۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہ جبریل امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کس کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
جس سے جگر لالہ میں ہو ٹھنڈک وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

اقبال کی اس نظم کا اقبال کی باقی شاعری سے وہی تعلق ہے جو سورئہ اخلاص کا باقی قرآن سے ہے۔ اسی لیے اردو کے ممتاز نقاد اور شاعر سلیم احمد نے اقبال کی اس نظم کو اقبال کا سورئہ اخلاص قرار دیا ہے۔ لیکن اقبال مومن کے بارے میں صرف ایک نظم کہہ کر نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے اس تصورِ انسان پر بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
٭٭
ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین کار کشا کار ساز
٭٭
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
٭٭
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندئہ مومن کی اذاں سے پیدا
٭٭
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سّرِ کلیم و خلیل
٭٭
یہ غاری یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
٭٭
تقدیر کے پابند جمارات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند

اقبال قیام پاکستان کے بعد زندہ ہوتے تو وہ اپنے تصورِ انسان کی بنیاد اس ریاست کی تسلیم کرتے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کی اساس اقبال کا تصورِ انسان ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاست اقبال کے مردِ مومن کا طواف کررہی ہوتی۔ پاکستان کی عدلیہ میں ہر طرف مومنوں کا راج ہوتا۔ پاکستانی فوج کی قیادت ہر دور میں کوئی نہ کوئی مردِ مومن کررہا ہوتا۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ اقبال صرف برصغیر میں ایک مسلم ریاست کا تصور پیش کرکے رہ گئے۔ ان کے خلا کو ایک حد تک قائداعظم نے پُر کیا مگر وہ بھی قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد اللہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ قائد ِ ملت لیاقت علی خان پاکستان کو اقبال کے خواب کے مطابق ڈھال سکتے تھے مگر انہیں شہید کردیا گیا اور بالآخر پاکستان پر جرنیلوں کا قبضہ ہوگیا۔

اصول ہے کہ انسان جیسا خود ہوتا ہے دوسرے انسانوں کو بھی وہ ویسا ہی بنانا چاہتا ہے۔ کارل مارکس کے فلسفے میں سب کچھ معاشیات تھی چنانچہ روس اور چین میں کمیونسٹ انقلابات آئے تو ان ملکوں نے اپنی قوم کو معاشی حیوان بنا کر کھڑا کردیا۔ مغرب میں خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت ہوئی تو انسان صرف ایک ’’مادی حقیقت‘‘ بن کر رہ گیا۔ فرائیڈ کے فلسفے میں جنسی جبلت بنیادی چیز تھی چنانچہ فرائیڈ کا انسان صرف ’’جنسی حیوان‘‘ ہے۔ پاکستان کے جرنیل ’’بونے‘‘ ہوتے تو وہ اپنی قوم کو بھی ’’بونا‘‘ بنانے کی جدوجہد کرتے مگر پاکستان کے جرنیل صرف ’’بالشتیے‘‘ ہیں اس لیے وہ اپنی قوم کو بھی بالشتیوں کی قوم بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمارے جرنیل امریکا اور یورپ کے ’’غلام‘‘ ہیں چنانچہ وہ اپنی قوم کو بھی ’’جرنیلوں کی غلام‘‘ بنانے کی تک و دو کرتے رہتے ہیں۔

جنرل ایوب نے 1958ء میں اقتدار پر قبضے کیا تو انہوں نے فوج کو سیاست دان پیدا کرنے والی فیکٹری بنادیا۔ اس فیکٹری کی پہلی بڑی ’’پروڈکٹ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بھٹو ذہین تھے۔ صاحب ِ علم تھے ان کا ایک عالمی تناظر تھا مگر ان کا تصورِ انسان پست تھا۔ ان کی زندگی میں نہ مسلمان ہونے کے باوجود نہ کہیں خدا تھا۔ نہ کہیں رسول تھا نہ کہیں قرآن و حدیث تھے۔ ان کے لیے اہم صرف دنیا اور اس کی کامیابی تھی۔ چنانچہ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ’’ولدیت‘‘ تبدیل کرلی اور وہ اپنے باپ کے بجائے جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہنے لگے۔ الطاف حسین جنرل ضیا الحق سے پہلے سیاست میں موجود تھے مگر وہ جنرل ضیا الحق کی سرپرستی سے پہلے صرف ’’انسان‘‘ تھے مگر جنرل ضیا الحق کی سرپرستی نے انہیں ’’جن‘‘ بنادیا۔ اس جن نے کراچی کو 35 سال میں 92 ہزار لاشوں کا تحفہ دیا۔ یہ جن مہاجروں کی مذہبیت، ان کی تہذیب، ان کا علم، ان کا شعور، ان کا اخلاق اور ان کا کردار کھا گیا اور اس جن نے مہاجروں کو دہشت گرد اور بھتا خور بنادیا۔ میاں نواز شریف جنرل ضیا اور جنرل جیلانی کی نظر عنایت سے پہلے صرف ایک صنعت کار کے بیٹے تھے اور ان کا دماغ لکڑی کا تھا مگر جنرل ضیا اور جنرل جیلانی کی سرپرستی نے انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ اور بالآخر ملک کا وزیراعظم بنادیا۔ عمران خان کو ریاست اور ریاست کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی۔ وہ صرف ایک کرکٹر اور فلاحی کام کرنے والی شخصیت تھے۔ مگر جرنیلوں نے انہیں ملک کا وزیراعظم بنادیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جرنیل خود سیاست دانوں کے بت بناتے ہیں اور پھر خود ہی ان بتوں کو توڑنے پھوڑنے لگتے ہیں۔ جرنیلوں کے اس طرزِ عمل نے پاکستانی سیاست کو کولہو کا بیل بنادیا ہے۔ یہ بیل 1958ء سے اب تک صرف ایک دائرے میں گردش کیے چلا جارہا ہے۔ ساری دنیا میں انتخابات سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرتے ہیں مگر پاکستان میں جرنیل انتخابات میں اس بڑے پیمانے پر دھاندلی کرتے ہیں کہ انتخابات سے ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر میں ملک آئین سے چلتے ہیں مگر پاکستان میں آئین بھی جرنیلوں کو خواہشات کا پابند ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں اس آئین کو معطل کردیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں عدالت سے اس کی من مانی تشریح کرالیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں آئین کو ایک ’’فضول دستاویز‘‘ میں ڈھال دیتے ہیں۔ سیدنا علی ؓنے کہا تھا معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر نہیں مگر پاکستانی جرنیلوں نے ملک کی تمام عدالتوں کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ بھٹو کو جس قتل کے الزام میں سزائے موت دی وہ قتل بھٹو نے نہیں کرایا تھا۔ اب عمران خان کو جن ’’جرائم‘‘ کی پاداش میں عدالتوں سے سزائیں دلوائی جارہی ہیں۔ ان جرائم کا ارتکاب عمران خان نے نہیں کیا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت اور معاشرے کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو معاشرہ بھی عروج کی طرف جاتا ہے اور جب صحافت زوال پزیر ہوجاتی ہے تو معاشرہ بھی زوال پزیر ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی جرنیلوں نے ذرائع ابلاغ کو اپنا غلام بنادیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ خبر میں عمران خان کا نام بھی نہیں لے سکتے وہ انہی ’’بانی پی ٹی آئی‘‘ کہتے ہیں۔ پاکستانی جرنیلوں، پاکستانی نوجوانوں سے اس حد تک خائف ہیں کہ انہوں نے 1984ء سے اب تک طلبہ یونین پر پابندی عائد کررکھی ہے اور ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ اور ’’شاہین‘‘ پیدا کرنے کے بجائے ’’بالشتیے‘‘ پیدا کررہے ہیں۔ جیسے آقا ویسے غلام۔