مذاکرات کا اونٹ

219

مذاکرات کا اونٹ کس کل بیٹھے گا؟ اس کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔ حکومت نے اپنی طرف سے ان مذاکرات کو وائنڈ اپ کردیا ہے، حکومتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی صاحب کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دو دور ہوئے لیکن دونوں میں بات چیت کے حوالے سے ایک انچ کی بھی پیش رفت نہ ہوسکی۔ نشست و برخاست خاطر تواضح تک محدود رہی۔ پی ٹی آئی کی ٹیم نے زبانی طور پر اپنے مطالبات پیش ضرور کیے لیکن جب اس سے کہا گیا کہ یہ مطالبات تحریری شکل میں مذاکرات کی میز پر رکھے جائیں تو پی ٹی آئی کی ٹیم کنّی کترا گئی۔ اس نے کہا کہ وہ عمران خان سے ملاقات اور مشاورت کے بعد ہی مطالبات کو تحریری شکل میں پیش کرسکے گی۔ بعد میں سوشل میڈیا پر یہ افواہ اُڑا دی گئی کہ حکومتی کمیٹی تحریر اس لیے طلب کررہی ہے تا کہ وہ یہ دعویٰ کرسکے کہ پی ٹی آئی نے اس سے تحریری طور پر ’’این آر او‘‘ مانگا ہے۔ حالانکہ حکومت بیچاری خود این آر او پر چل رہی ہے اور یہ این آر او اسے فوجی مقتدرہ نے دے رکھا ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس مذاکرات کو جاری رکھنے یا بند کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے۔ یہ سب کچھ مقتدرہ کی صوابدید پر ہورہا ہے جبکہ پس پردہ خان صاحب سے ڈیل کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے، اگر کوئی ڈیل کامیاب ہوتی ہے تو اسے مذاکرات کی کامیابی کا نام دیا جائے گا تا کہ اس میں کسی فریق کی سبکی نہ ہو اور اس ڈیل پر کامیابی سے عمل کیا جاسکے۔

اب تک مختلف ذرائع سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق مقتدرہ نے خان صاحب پر واضح کردیا ہے کہ موجودہ سسٹم جیسا کچھ بھی ہے اسے فوری طور پر لپیٹا نہیں جاسکتا، ہم آپ کو بنی گالا شفٹ کیے دیتے ہیں آپ وہاں رہیں اور اس سسٹم کو فی الحال چلنے دیں اور اس کے خلاف احتجاج، دھرنا یا سول نافرمانی کی کال موخر کردیں۔ ہم عدالتوں سے بھی دبائو ہٹائے دیتے ہیں، وہ آپ کے حق میں آزادانہ فیصلے کریں گی، اس طرح آپ خود کو عدالتوں سے کلیئر کروالیں، پھر آپ موجودہ حکومت کے خلاف بھی تحریک چلا سکتے ہیں مقتدرہ اسے بیساکھی فراہم نہیں کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ خان صاحب نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ فی الحال ان کے ساتھیوں اور کارکنوں کو تو رہا کیا جائے جو مقدمہ چلائے بغیر نظر بند ہیں، مجھے جیل سے نکلنے کی ایسی کوئی جلدی نہیں ہے۔ میں اپنے مقدمات جیل میں رہ کر بھی لڑ رہا ہوں اور آئندہ بھی لڑتا رہوں گا۔

ہمارے دوست کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی پس پردہ چل رہا ہے اس سے موجودہ حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں بالآخر انہیں رخصت ہونا پڑے گا۔ جس کے لیے وہ تیار نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اگر انہیں حکومت دی گئی ہے تو اسے چلنے دیا جائے اور کم از کم پانچ سال تک ان سے کچھ نہ پوچھا جائے، پھر پانچ سال بعد صاف ستھرے انتخابات کرادیے جائیں۔ موجودہ وزرا کا خیال ہے کہ وہ پانچ سال کے دوران عمران خان کا توڑ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور اگلے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کلین سویپ کرے گی لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) میں جان نہیں ہے۔ 2024ء کے انتخابات نے اسے بری طرح ایکسپوز کردیا ہے اس کے لیڈر میاں نواز شریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اپنے پائوں تلے روند کر اپنا سیاسی قد بہت چھوٹا کرلیا ہے جو اب کسی صورت بڑا نہیں ہوسکتا۔ بلکہ دیکھا جائے تو عملاً ان کی سیاسی موت واقع ہوچکی ہے۔ یہی معاملہ زرداری کا ہے وہ موجودہ سیٹ اپ میں صدر تو بن گئے ہیں لیکن ان کی پارٹی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بلاول نے 26 ویں آئینی ترمیم کو منظور کرانے میں جس طرح اُچھل کود کی اس نے اس کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اب سندھ پر ہی گزارا کرنا پڑے گا جو اسے تحفے میں ملا ہوا ہے۔

بظاہر ان باتوں کا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذاکرات پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہورہے ہیں لیکن درحقیقت ان مذاکرات کا حکومت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے یہ بالواسطہ طور پر پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے درمیان ہورہے ہیں اور مقتدرہ ان مذاکرات کو ’’نتیجہ خیز‘‘ بنانے کے لیے تمام حربے اختیار کررہی ہے۔ ان حربوں میں عدالتی فیصلوں میں تاخیر بھی شامل ہے۔ یہ ماننا پڑے گا کہ مقتدرہ کو بیرونی دبائو کا بھی سامنا ہے اور اس دبائو میں امریکا کا دبائو بھی شامل ہے۔ ابھی امریکا نے براہ راست عمران خان کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا لیکن صدر ٹرمپ سے کچھ بعید نہیں وہ یہ کر بھی سکتے ہیں، ایسی صورت میں فوجی مقتدرہ بڑی مشکل میں پھنس جائے گی اس مشکل سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ مذاکرات سے مقتدرہ کی ساکھ بھی رہ جائے گی اور امریکا بھی مطمئن ہوجائے گا۔ شاید اسی لیے خان صاحب بھی چاہتے ہیں کہ مذاکرات چلتے رہیں۔