مشکل حالات کا تقاضا مذاکرات اور مفاہمت

99

ان دنوں ملک میں مذاکرات کا سلسلہ بظاہر پی ٹی آئی اور نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت ملک دیگر جماعتوں کے درمیان جاری ہے، دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے ساتھ بشریٰ بی بی اور گنڈاپور کے ذریعے خفیہ طور پر جاری ہے۔ ملک کی سلامتی کا انحصار ان اداروں یا افراد پر ہوتا ہے جن کے پاس تمام تر اختیارات ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سلامتی کے ادارے موجودہ حالات میں ملک کے اطراف ہونے والے خطرات کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔ اب ان اداروں نے خطرات کو بھانپ کر ملک کے سویلین حلقوں سے بھی مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ موجودہ دور میں حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ان سے نبرد آزما ہونا صرف سلامتی کے حکام کے بس کی بات نہیں رہی۔ یہ ادارے ان پالیسیوں پر گامزن رہے جو ان اداروں نے ابتدائی زمانے میں مرتب کی تھی ان پالیسیوں کا تعین قیام پاکستان کے وقت ہی سے متعین کر دیا گیا تھا۔ بلکہ کہنا یہ چاہیے کے پاکستان کا قیام ہی ان اصولوں اور ضابطوں کی وجہ سے ہوا تھا جس کی وجہ سے آزادی کا حصول ممکن ہوا یعنی پاکستان کے قیام کا مقصد ایک یہ بھی رکھا گیا تھا۔

پاکستان کے قیام کے بعد جن قوتوں سے آزادی حاصل کی گئی تھی ان کے مفادات کی حفاظت بھی مقصود تھی۔ آزادی کے لیے یہ اسی طرح کی شرط رکھی گئی تھی جس طرح بعد میں امریکا نے طالبان سے اس شرط پر معاہدہ کیا تھا کہ ان کے مفاد کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہوگی اسی طرح پاکستان کا قیام بھی اس شرط پر رکھا گیا تھا کہ پاکستان ہمیشہ مغرب کی مخالف قوتوں کے ساتھ کھڑا رہے گا جس کی عوض پاکستان کو ایک خطہ زمین کے ساتھ ساتھ انگلستان کی تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ دیا گیا تھا۔ یعنی پاکستان کو ہندوستان کا سترہ فی صد علاقہ اور آبادی کا تقریباً بیسں فی صد کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ دیا گیا یوں پاکستان شروع ہی سیٹو اور سینٹو کا رکن بن کر سوویت یونین اور مشرقی بلاک کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اسی طرح ایک وقت وہ بھی آیا جب پاکستان ان مغربی قوتوں کا نان ناٹو الائی کا درجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ یوں ایک طرف پاکستان کے تمام ادارے بشمول فوج امریکا اور مغربی طاقتوں کے لیے وقت ضرورت استعمال ہوتے رہے۔

موجودہ دور میں امریکا کے مقابلہ میں چین ایک ابھرتی ہوئی قوت کے طور پر سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہے۔ امریکا نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی سلامتی کو بڑے بھیانک خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، دوسری طرف پاکستان کے پاس ایک ہی اتحادی چین کی صورت دکھائی دے رہا ہے جو ایک حد تک پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو اپنی پرانی رفاقتیں اور پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا اس لیے قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد کی متعین کردہ پالیسیوں کو تبدیل کرنا ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔ اب جو تبدیلیاں لائی جائیں گی ان کے اثرات آئندہ بڑے طویل عرصے تک کے لیے قائم رہیں گے۔ ایک طرف امریکا اور مغرب نے چین کے خلاف محاذ میں بھارت کو اپنا شریک بنا کر پاکستان کی سلامتی کے خطرات میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان جو پہلے ہی شدید معاشی اور سلامتی کے خطرات میں شدت سے جکڑا ہوا ہے ملک کے اندر انتشار کی کیفیت ہے، ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں، ملک اندرونی انتشار کا شکار ہے، دوسری طرف بیرونی خطرات کا دیو چاروں طرف سے اس کو گھیرے ہوئے ہے اس موقع پر امریکا اور مغرب کی قوتوں کے ساتھ ساتھ بھارت اور افغانستان سے خطرات میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اندرونی اور بیرونی خطرات سے مقابلے کے لیے ملک اور معاشرے کے ہر طبقے کو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دینی چاہیے۔

گزشتہ ستتر سال سے اسٹیبلشمنٹ نے براہ راست یا بالواسطہ ملکی اداروں کے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں اب ان خطرات کا مقابلہ تنہا سلامتی کے ادارے نہیں کر سکتے اس لیے ملکی سلامتی کے معاملات میں سویلین کو بھی نہ صرف شامل کیا جائے بلکہ اقتدار کے ساتھ ساتھ اختیارات بھی ان کے حوالے کر دیے جائیں جیسے کہ ہندوستان یا بنگلا دیش میں سول حکومتوں کے پاس اختیارات موجود ہیں اور مزید روشن خیالی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ایک ادارے کو اس کی ماہرانہ خصوصیات کی مناسبت سے ذمے داریوں سے نوازا جائے۔ سیاستدانوں کو غیر جانبدارانہ طور پر ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے عہدے تفویض کیے جائیں اسی طرح سویلین اور بیورو کریسی کے ذمے ان پالیسیوں پر عمل درآمد کی ذمے داریاں تفویض میرٹ پر کی جائیں۔ فوج سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی پر بھی بھر پور انداز میں شامل رہے مگر اپنی حدود میں رہ کر۔

امپائر کے فرائض بھی ان اداروں کی ذمے داریوں میں شامل ہو مگر یہ غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے یعنی انہیں خود اس کھیل کا حصہ نہ رہنا چاہیے اور کسی بھی فریق سے جانبداری نہ برتے، اصولی فیصلہ پر قائم رہنا چاہیے۔ معاشرے کے تمام طبقوں کو باہم مل کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ ملک میں قومی یک جہتی کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ سلامتی کے خلاف خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو تیار کرنا چاہیے۔ ملکی اداروں اور محکموں کو اپنے اخراجات میں بے پناہ کمی کر کے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے باہر نکالنا چاہیے۔ اس طرح ایک طرف تمام ادارے اور محکمہ کے اعلیٰ حکام اپنے طرز زندگی کو مکمل تبدیل کر کے اپنے آپ کو عوام کی سطح پر لا کر قربانی کے لیے پیش کرنا ضروری ہے اگر ایسا نہیں ہوا تو جس طرح کے خطرات چاروں طرف منڈلا رہے ہیں اگر وہ حقیقت کا روپ اختیار کر گئے تو یہ تمام سہولتیں زبردستی ان سے چھین لی جائیں گی اس وقت کا یہ سنگین بحران مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بحران سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ اُس دور میں پاکستان کی معیشت آج کے مقابلے میں بہت بہتر تھی اور بہت سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے مددگار تھے جب کہ اب اس کے بالکل برعکس معاملات ہیں۔ اس وقت بہت سے دوست ممالک بشمول عرب اور مسلم ممالک بھی پاکستان کے دوستوں میں شامل تھے۔ جب کہ اب پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے سوائے ترکی اور چین کے سب امریکا اور بھارت کے زیر اثر ہیں وہ پاکستان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں ایک طرف امریکا اور مغرب، پاکستان کے خلاف صف آراء ہو چکی ہیں دوسری طرف بھارت میں مودی کی حکومت پاکستان اور مسلمانوں کو کھلم کھلا بر باد کرنے کی تدبیریں کر رہے ہیں، تیسری طرف افغانستان کے حالات سے براہ راست پاکستان متاثر ہو رہا ہے اس طرح تمام ہوائیں پاکستان کے خلاف چل رہی ہیں اور ملک میں قومی یک جہتی کا فقدان نظر آ رہا ہے ہر طرف خطرات منڈلا رہے ہیں دنیا بھر میں ہر طرف مخالفین عروج پر دکھائی دے رہے ہیں۔ سوائے قومی مفاہمتی پالیسی کے اور کوئی راستہ نہیں بچا: بقول صبا اکبر آبادی

ساری دنیا میری مخالف ہے
تم نے کیا کہہ دیا زمانے سے