پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے کہا ہے کہ ہم شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات پر قائم رہیں گے۔ بھٹو کی 97 ویں سالگرہ پر ایک بیان میں بلاول نے کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت اور انسانی حقوق سے متعلق جدوجہد ہمارے لیے ہمیشہ مشعل راہ رہے گی۔ بلاول نے کہا کہ بھٹو ایک دور اندیش لیڈر اور جدید پاکستان کے معمار تھے قائد عوام نے انقلابی اصلاحات کے ذریعے مزدور اور پسماندہ طبقات کو حقوق دیے۔ انہوں نے زرعی اصلاحات، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں انقلابی پالیسیوں کے ذریعے عوام کو بااختیار بنایا۔ (روزنامہ ایکسپریس، کراچی، 6 جنوری 2025ء)
پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی المیہ یہ ہے کہ ملک میں جماعت اسلامی کے سوا کسی سیاسی جماعت کا کوئی نظریہ ہے نہ کسی جماعت کے کوئی ’’نظریات‘‘ ہیں۔ آپ نواز شریف سے پوچھیں کہ آپ کی جماعت کا نظریہ کیا ہے تو وہ کسی نظریے کی نشاندہی نہیں کرسکتے۔ آپ پیپلز پارٹی سے پوچھیں کہ تمہارا نظریہ کیا ہے تو وہ بھی کسی نظریے کی جانب اشارہ نہیں کرسکتے۔ عمران خان ایک زمانے میں ’’ریاست مدینہ‘‘ کا بہت ذکر کرتے تھے مگر ریاست مدینہ ان کا ’’نعرہ‘‘ ہے۔ ’’نظریہ‘‘ نہیں۔ انہیں ریاست مدینہ کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ بلاشبہ بھٹو صاحب کا نظریہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ تھا لیکن اس نظریے کا کوئی مفہوم نہیں تھا۔ اس لیے کہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد تھے۔ اسلام ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب اور موت کے بعد زندگی پر ایمان رکھتا ہے اور سوشلزم خدا اور رسالت کے تصور کا دشمن تھا۔ وہ کسی بھی الہامی کتاب پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ اس کے نزدیک موت کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو صاحب نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ بیک وقت جدید اور قدیم نظر آنے کے لیے لگایا تھا۔ اسلام کے ذریعے وہ پاکستان کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو خوش کرنا چاہتے تھے اور سوشلزم کے ذریعے وہ پاکستان کے بائیں بازو کو اپنی گرفت میں رکھنے کے خواہش مند تھے۔ بھٹو صاحب اگر سچے مسلمان ہوتے تو وہ کبھی اسلام کے ساتھ سوشلزم کو کھڑا نہ کرتے اور اگر وہ سچے سوشلسٹ ہوتے تو وہ سوشلزم میں اسلام کی پیوندکاری نہ کرتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھٹو صاحب کا اسلام بھی جعلی تھا اور سوشلزم بھی جعلی تھا۔ بلاشبہ انہوں نے قوم کو 73 کا اسلامی آئین دیا مگر انہوں نے 1973ء سے 1977ء تک کبھی اسلام کو آئین سے نکل کر
ریاست اور معاشرے پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے 1973ء سے 1977ء تک آئین کو اسلام کا ’’قیدخانہ‘‘ بنائے رکھا۔ انہوں نے 1970ء سے 1977ء تک جو سیاست کی اس میں نے کہیں اسلام تھا نہ سوشلزم۔ اس میں اگر کوئی چیز تھی تو صرف اقتدار کی ہوس۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو نظریہ تو مولانا مودودی کا تھا جنہوں نے اسلام کے مثالیوں یاIdeals کو پیش نظر رکھتے ہوئے جماعت اسلامی قائم کی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی بنیاد رکھی۔ مولانا کے چونکہ کچھ ’’نظریات‘‘ بھی تھے اس لیے انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کی تنقید بھی لکھی اور پیشگوئی کی کہ ایک وقت آئے گا جب سوشلزم کو ماسکو میں اور لبرل ازم کو لندن اور پیرس میں پناہ نہیں ملے گی۔ مولانا کی پیشگوئی کا پہلا نصف سچ ثابت ہوچکا ہے اور آخری نصف ان شاء اللہ آج نہیں تو کل ضرور درست ثابت ہوگا۔ نظریے کو دیکھا جائے تو نظریہ تو لینن کا تھا جس نے سوشلزم کی بنیاد پر روس میں انقلاب برپا کیا۔ نظریہ تو اسٹالن کا تھا جس نے ایک پسماندہ روس کو 31 برس میں دنیا کی دوسری سپر پاور بنادیا۔ نظریہ تو اسٹالن کے نظریاتی حریف ٹروٹسکی کا تھا جس نے اسٹالن پر الزام لگایا کہ وہ روسی انقلاب کی پیش قدمی کے حوالے سے مارکس کے نظریات سے انحراف کررہا ہے۔ ٹروٹسکی کو معلوم تھا کہ اگر وہ اسٹالن پر تنقید کرے گا تو وہ اسے زندہ نہیں رہنے دے گا اور یہی ہوا۔ اسٹالن نے ٹروٹسکی کو مروا دیا۔ نظریہ تو مائوزے تنگ کا تھا جس نے چین میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا اور 33 سال میں چین کو دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں ایک بڑی طاقت بنادیا۔ اسٹالن نے 31 اور مائو نے 33 سال بعد بلا شرکت غیر حکومتیں کیں مگر جب وہ مرے تو ان کے پاس نہ کوئی بینک بیلنس تھا نہ کوئی جائداد تھی۔ نظریات تو گاندھی کے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی عدم تشدد کے فلسفے پر عمل میں گزار دی۔ بھارت نے پاکستان کے حصے کے 70 کروڑ روپے روکے تو گاندھی نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کردی اور بھارتی حکومت کو گھبرا کر پاکستان کے حصے کی رقم جاری کرنی پڑی۔ گاندھی کے اس اقدام سے نتھورام گوڈسے کو پیغام ملا کہ گاندھی ہندو ہو کر بھی مسلمانوں کا ہمدرد ہے چنانچہ اس نے گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ نظریات تو بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے تھے۔ بھارت کے آئین بنانے والے آئین کا مسودہ لے کر نہرو کے پاس پہنچے تو نہرو نے دیکھا کہ بھارت کی قومی زبانوں کی فہرست میں اردو کا نام نہیں ہے۔ نہرو نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ اردو ہم میں سے کسی کی مادری زبان نہیں ہے۔ نہرو نے کہا اردو میری مادری زبان ہے چنانچہ اردو بھارت کے آئین کا حصہ بن گئی۔ یہ نہرو تھے جو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے۔ آر ایس ایس اور اس کے متاثرین نے آج تک نہرو کو اس عمل پر معاف نہیں کیا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ نہرو 16 سال تک بھارت کے وزیراعظم رہے۔ مگر جب وہ مرے تو ان کے پاس نہ کوئی بینک بیلنس تھا نہ جائداد۔ نظریات تو بھارت کی دانش ور اور ادیبہ ارون دھتی رائے کے ہیں جو بھارت میں رہ کر کشمیر پر بھارتی موقف کی مذمت کرتی ہیں۔ بھٹو کہنے کو سوشلسٹ تھے مگر جب وہ مرے تو ان کے پاس اربوں کا بینک بیلنس اور کھربوں کی زرعی اراضی تھی۔ انہوں نے جو زرعی اصلاحات کیں ان کے نتیجے میں بھٹو خاندان ایک ایکڑ زمین سے بھی محروم نہیں ہوا۔
بلاول زرداری نے اپنے نانا کو ’’جمہوریت پسند‘‘ بھی قرار دیا ہے۔ حالانکہ بھٹو کا جمہوریت سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ بھٹو جنرل ایوب کی کابینہ کے رکن تھے اور ان کا جنرل ایوب جیسے آمر سے یہ تعلق تھا کہ وہ احتراماً ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ وہ جنرل ایوب سے الگ ہوئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ جنرل ایوب کے زمانے میں بھارت کے ساتھ ہونے والے معاہدہ تاشقند کے راز افشاں کردیں گے مگر وہ کبھی ایسا نہ کرسکے۔ بھٹو کی جمہوریت دشمنی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے 1970ء میں شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت اور ان کے عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے بجائے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگادیا۔ بھٹو جمہوریت پسند ہوتے تو ڈھاکا میں بلائے گئے اجلاس میں شرکت کرتے مگر بھٹو نے مغربی پاکستان سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو دھمکی دی کہ اگر کسی نے ڈھاکا میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بھٹو کی جمہوریت دشمنی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے 1977ء کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کی راہ ہموار کرکے جمہوریت کے چہرے کو داغدار کیا۔ بھٹو ان انتخابات میں دھاندلی نہ کراتے تو بھی وہی ملک کے وزیر اعظم بنتے اس لیے کہ اکثریت انہی کے پاس ہوتی مگر بھٹو کی ہوس ملک گیری نے انہیں دھاندلی پر اُکسایا اور اس دھاندلی سے پیدا ہونے والا بحران بالآخر مارشل لا کا سبب بنا۔ بھٹو اگر جمہوریت پسند ہوتے تو وہ پیپلز پارٹی میں انتخابات کراتے مگر بھٹو جب تک زندہ رہے انہیں کبھی پارٹی کے اندر انتخابات کرانے کی توفیق نہ ہوئی۔ حالانکہ اگر بھٹو انتخابات کراتے تو وہی پارٹی کے صدر یا چیئرمین منتخب ہوتے۔ بدقسمتی سے ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو، ان کے داماد آصف علی زرداری اور ان کے نواسے بلاول کو کبھی پیپلز پارٹی میں انتخابات کرانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں واحد جمہوری جماعت صرف جماعت اسلامی ہے جس میں پہلے دن سے آج تک تواتر کے ساتھ انتخابات ہورہے ہیں اور قیادت کا حیرت انگیز تنوع سامنے آرہا ہے۔ دیکھا جائے تو جماعت اسلامی میں انتخابات کا بیج خود جماعت کے بانی مولانا مودودیؒ نے بویا تھا۔ وہ خود امیر کے منصب سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کی دستبرداری کی اطلاع ممتاز وکیل ایس ایم ظفر کو ہوئی تو وہ مولانا کے پاس گئے اور کہا کہ مولانا بھلا کبھی مجدّد بھی ریٹائر ہوتا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ مگر اس کے باوجود مولانا امارت سے الگ ہوئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے جماعت اسلامی میں مرکزی، صوبائی اور مقامی سطح پر انتخابات ہورہے ہیں۔ بلاول کو کوئی بتائے کہ جمہوریت پسندی اس کو کہتے ہیں۔