یہ بات درست ہے

200

مغربی میڈیا ہو یا بھارتی میڈیا دونوں ہی اپنی حکومتوں اور حکومتوں کے خالقوں اور مالی سرپرستوں کے تابع ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک خبر آئی کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی کارٹونسٹ نے امریکی ارب پتی جیف بیزوس کے خلاف کارٹون سنسر کرنے پر ملازمت سے استعفا دے دیا ہے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق 64 سالہ این ٹیلناس نے اپنے کارٹون میں جیف بیزوس اور دیگر امریکی ارب پتیوں کو نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجسمے کے سامنے ڈالرز کے تھیلے پیش کرتے ہوئے دکھایا تھا۔ کارٹونسٹ نے جن دیگر امریکی ارب پتیوں کے خاکے بنائے تھے ان میں فیس بک کے مالک مارک زکربرگ اور اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹمین بھی شامل ہیں جبکہ والٹ ڈزنی کی علامت مکی ماؤس بھی ٹرمپ کے مجسمے کے ساتھ موجود ہے۔ این ٹیلناس کا موقف بھی سامنے آیاکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اخبار نے ان کا کارٹون اس وجہ سے سنسر کیا ہو کہ وہ کسی کے خلاف ہے۔ وہ خود کے بارے میں فیصلے کو ایک خطرناک رحجان اور اور آزادی صحافت کے خلاف ایک عمل تصور کررہی ہیں۔

این ٹیلناس کا موقف اپنی جگہ مگر جو اپنی حکومتوں اور حکومتوں کے خالقوں اور مالی سرپرستوں کے تابع ہوتا ہے اس کی بھی کچھ ’’مجبوریاں‘‘ ہیں۔ یہ واقعہ ہمارے ملک میں آزادی صحافت کے پروانوں کے لیے ایک سبق ہے۔ مستعفی ہونے والی کارٹونسٹ کے موقف پرواشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر ڈیوڈ شپلے کا بھی موقف سامنے آیا ہے کہ وہ مستعفی کارٹونسٹ کی اس تشریح سے متفق نہیں ہیں کہ یہ ادارتی فیصلہ کسی مذموم عمل کا نتیجہ ہے۔ بہر حال ہمارا یہ مسئلہ نہیں ہے کہ دونوں میں درست کون ہے؟ ہمارا مسئلہ مغربی میڈیا کا رویہ ہے‘ مغرب خصوصاً امریکا‘ خلیج کے پہلی جنگ کے بعد سے اب تک میڈیا کے سر پر جنگ میں اپنے مفادات کا تحفظ اور ہنگامہ خیزی کرتا چلا آرہا ہے۔ خلیج کی پہلی جنگ میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ امریکی فوجی نہیں بلکہ سی این این جنگ لڑرہا ہے۔ مغربی میڈیا کی یک طرفہ پروپیگنڈا مہم کوئی نئی بات نہیں۔ جب 1971 کی جنگ کے پاکستانی جنگی قیدی رہا ہوکر آئے تھے تو ایک مغربی میڈیا نے اس تاثر کی نفی کرنے کے لیے بھارت میں پاکستانی جنگی قیدی بہت مشکل حالات میں رہے، اس میڈیا کے نمائندے نے بھاری بھرکم جسم والے قیدیوں کی تصاویر بنائیں اور اسٹوری د ی کہ بھارت میں ان سے بہت اچھا سلوک کیا گیا ہے، اسی رپورٹر نے بعد میں بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں خوب نام کمایا۔

ہمارے ہاں بھی ایک فیشن بن گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرو، ان کے خلاف لکھو اور مغربی نکتہ نگاہ کو پھیلائو۔ جو بھی یہ کرتا ہے مغربی میڈیا اسے ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے اس لیے مقبوضہ کشمیر کا محاذ ہو یا افغانستان یا بلوچستان یا پھر سابق فاٹا۔ مغربی میڈیا گدھ کی طرح ایسی سڑی لاشیں تلاش کرتا ہے جن کی تحریروں میں سڑاند آتی ہو۔ پہلے وہ ہمدرد بن کر آتے ہیں اور گپ شپ کے ماحول میں بات کرتے ہیں لیکن اسٹوری فائل کرتے ہیں تو اپنے ’’حقائق‘‘ بیان کرتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ مغرب میں انہیں پذیرائی بھی خوب ملتی ہے۔ یہ سارا طرز عمل ہمیں اس بات کی بھی خبر دیتا ہے کہ ہمارے سفارت خانے، ہمارے پریس اتاشی اور ہماری وزارت اطلاعات کام ہی نہیں کرتی ہے۔

سال رواں کے بجٹ میں وزارت اطلاعت کے لیے 5649 ملین کی رقم رکھی گئی لیکن اس قدر خطیر رقم کے باوجود گزشتہ ماہ دسمبر میں مزید 54 کروڑ مانگے گئے کہ ہمیں حکومت مخالف پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ہے۔ بہتر ہوتا کہ مزید رقم مانگنے کے بجائے پہلے بجٹ میں رکھی گئی رقم کے استعمال کی رپورٹ لے لی جاتی لیکن جناب یہ ملک کی بیورو کریسی ہے اس سے کون پنگا لے گا؟ حکومت اس سے کیا حساب مانگے گی، حکومت تو یہ معلوم نہیں کرسکی کہ وزارت اطلاعات کے بیرون ملک تعینات ہونے والے افسروں کی ایک بڑی تعداد مغربی ملکوں میں کیوں رہ جاتی ہے۔ ویسے اس کام میں وزارت خارجہ بھی کسی سے کم نہیں ہے ایک رپورٹ ضرور پارلیمنٹ میں پیش ہونی چاہیے کہ گزشتہ دس سال میں وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ کے بیرون ملک تعینات ہونے والے کتنے افسر اور ان کے زیر کفالت ان کی فیملی کے کتنے لوگ برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور مغربی ممالک ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر ایسا کام حج عمرہ ٹریول والے کریں تو ایسے بھگوڑوں کو خرگوش کہا جاتا ہے کہ لیکن یہ سرکاری خرگوش تو کسی احتساب کے کٹہرے میں لائے ہی نہیں جاتے ان کا حساب کتاب ضرور ہونا چاہیے یونہی بے لگام کب تک وزارتیں یہ بوجھ برداشت کرتی رہیں گی۔

بات چونکہ میڈیا کی ہورہی ہے ابھی حال ہی میں ایک مغربی نشریاتی ادارے نے بلوچستان کے مسنگ پرسنز کے حوالے سے ایک متنازع اور غلط رپورٹ جاری کی ہے، سب جانتے ہیں کہ بلوچستان کی صورت حال خاصی پیچیدہ ہے، حکومتوں کی خاموشی اسے مزید سنگین بنا رہی ہے یہ مسئلہ تب حل ہوگا جب مسنگ پرسنز اور تخریب کاروں میں فرق کرلیا جائے گا۔ جب تک یہ نہیں ہوگا مغربی میڈیا زہریلہ کام کرتا رہے گا۔ ایک اور اہم بات یہاں کرنا بہت ضروری ہے ہماری حکومتیں اور کارپرداز دونوں ہی گوروں سے بہت مرعوب رہتے ہیں اور مقامی میڈیا کو لفٹ نہیں کراتے ہیں بس پھر جب اور جہاں ایسا ہوگا تو پھر نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔ ہر حکومت سرکاری ٹی وی، نجی ٹی وی چینلوں پر صرف اپوزیشن کو لتاڑتی ہے وزیراطلاعات، وزیراعظم اور حکومتی اہلکار مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے پر کیوں خاموش رہتے ہیں؟