ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل اے پی ایس جیسے واقعات کیلیے تھا، جسٹس مسرت ہلالی

141
financial cases worth 97 billion rupees are pending

اسلام آباد: جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملٹری کورٹس میں سویلینز کا ٹرائل اے پی ایس جیسے واقعات کیلیے تھا، کیا یہ رویہ تمام شہریوں کے ساتھ اختیار کیا جا سکتا ہے؟۔

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیل کی سماعت 7 رکنی آئینی بینچ نے کی،  جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ دورانِ سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل بنیادی طور پر اے پی ایس جیسے واقعات کے ذمے داران کے لیے تھا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا تمام شہریوں کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟

دورانِ سماعت وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 8(5) اور 8(3) مختلف ہیں اور ان کا یکساں اطلاق ممکن نہیں۔ انہوں نے ایف بی علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ عدالت نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کی گنجائش تسلیم کی تھی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے نشاندہی کی کہ موجودہ کیس میں 9 مئی کے واقعات کے ملزمان نہ تو آرمی کے سابق اہلکار ہیں اور نہ ہی ان کا آرمڈ فورسز سے کوئی تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کس نوعیت کے سویلین کیسز ملٹری کورٹس میں چل سکتے ہیں۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت جرم کی وضاحت اور ٹرائل کی نوعیت کا تعین پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیتا ہے، مگر آئین کو پارلیمنٹ سے برتر سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پارلیمنٹ چاہے تو کسی بھی عمل کو جرم قرار دے سکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے قوانین کا اطلاق کیسے اور کہاں ہوگا۔

عدالتی کارروائی میں جیل میں قید ملزمان کی صورتحال پر بھی گفتگو ہوئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ قیدیوں کو جیل مینوئل کے مطابق سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، ملاقاتوں کی اجازت دی گئی ہے اور گھریلو کھانے بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔ وکیل حفیظ اللہ نیازی نے اس موقع پر اعتراض اٹھایا کہ ملزمان کو قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور انہیں وکلا سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قید تنہائی بہت سخت سزا ہے اور اگر کسی شخص کو دنوں تک ایک کمرے میں بند رکھا جائے تو وہ اپنی ذہنی حالت کھو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی اور قتل کے سنگین مقدمات میں بھی ملزمان کو محدود آزادی دی جاتی ہے تو یہاں ایسا کیوں نہیں ہو رہا۔

سپریم کورٹ نے ملزمان کو قید تنہائی میں رکھنے اور وکلا سے ملاقات کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے وضاحت طلب کرتے ہوئے مزید سماعت آئندہ روز تک ملتوی کر دی گئی۔