کراچی:کے ایم سی میں اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ قابض میئر کے کوآر ڈی نیٹرپرسنگین الزامات کی تحقیقات کی جائے۔
ڈپٹی پارلیمانی لیڈرزقاضی صدر الدین اور جنید مکاتی کے ہمراہ اپنے بیان میں سیف الدین ایڈووکیٹ نے گزشتہ روز شاہراہ فیصل پر ایک شہری پر قاتلانہ حملہ اور درج شدہ ایف آئی آر میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور مرتضیٰ وہاب کے مستقل کور آر ڈی نیٹر کرم اللہ وقاصی پر سنگین الزامات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائرنگ سے زخمی شخص نے کرم اللہ وقاصی اور ان کے دیگر ساتھیوں پر 9کروڑ روپے واپسی کا دعویٰ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ پیسے کچھ ٹھیکوں کے سلسلے میں لیے گئے تھے، اس فرد نے پہلے اسلام آباد میں تشدد کا الزام لگایا ہے اور پھر کراچی میں قاتلانہ حملے کی واردات میں ملوث کیا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مرتضیٰ وہاب کے کوآرڈینیٹر کرم اللہ وقاصی جو کے ایم سی ایوان کے ممبر اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بھی ہیں اگر ان پر الزامات غلط ہیں تو یہ بات واضح ہونا چاہیے اور اگر قاتلانہ حملہ میں زخمی مدعی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس پر کوئی دباؤ نہ ڈالا جائے ان کے جان ومال اور اہل و عیال کی حفاظت کو سندھ حکومت یقینی بنائے اور انہیں انصاف ملنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مرتضیٰ وہاب کے گرد ہر محکمے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے چرچے ہیں جس کے نتیجے میں کے ایم سی بدنامی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے اور ایک ناکام ادارہ بن گئی ہے۔قابض میئر کے ماتحت واٹر بورڈ کے سی ای او کو کرپشن کے الزام میں معطل کردیا گیا ہے ان کے ماتحت سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پر بھی بدترین کرپشن کے الزامات ہیں، اسی طرح کراچی میں اربوں روپے کے ترقیاتی کاموں میں کرپشن اور ناقص کاموں کے الزامات کی بھر مار ہے جو حالات اور واقعات سے ثابت بھی ہو رہے ہیں۔
سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ کے ایم سی کا دفتر ہو، ڈی جی ٹیکنیکل سروس یا کلک، ہر جگہ اربوں روپے کی لوٹ مار کے الزامات ہیں،اس سلسلے میں مختلف اداروں اور افراد کی طرف سے عدالتوں میں کیے گئے مقدمات میں بے قاعدگیاں اوربدعنوانیاں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں لیکن مقتدر طبقہ ہر چیز سے واقف ہو کر بھی کراچی کی تباہی پر خاموش ہے۔
انہوں نے کہا کہ گٹر میں گر کر بچوں کی اموات بھی کرپشن کے واقعات ہی کی وجہ سے ہیں۔اربوں روپے شہر میں خرچ کرنے کے دعویٰ کے باوجود اگر گٹروں پر ڈھکن بھی نہ لگ سکیں تو ایف آئی آر متعلقہ اداروں کے سربراہ اور ذمہ داروں کے خلاف درج ہونی چاہیے۔