سابق امریکا سفیر ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ ’’ٹیکنالوجی اور جغرافیائی حکمت عملی کی یہ جنگ اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ طاقت ہمیشہ وسائل اور علم کے گرد گھومتی ہے‘‘۔ دنیا میں طاقت کا کھیل ہمیشہ سے جغرافیائی اور تجارتی مفادات کے گرد گھومتا رہا ہے۔ جدید دور میں، ٹیکنالوجی نے اس مقابلے کو ایک نئی شکل دے دی ہے۔ جہاں ماضی میں نوآبادیاتی نظام کے تحت زمینوں پر قبضہ کیا جاتا تھا، وہیں آج ڈیجیٹل دور میں ڈیٹا، مصنوعی ذہانت، اور سپرکمپیوٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ جنگ نہ صرف معاشی نظام کو متاثر کررہی ہے بلکہ جغرافیائی سیاست کو بھی نئی سمت دے رہی ہے۔ اس وقت دنیا کی بڑی طاقتیں امریکا، چین، اور روس سمیت اپنے جغرافیائی اثر رسوخ کو بڑھانے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہی ہیں۔ چین کے ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘‘ کے ذریعے ایشیا، افریقا، اور یورپ کو تجارتی راہداریوں کے ذریعے جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ منصوبہ ترقی پذیر ممالک کے لیے اقتصادی مواقع تو پیدا کرتا ہے لیکن ساتھ ہی ان ممالک کو چین کے قرضوں میں جکڑنے کے خدشات بھی بڑھاتا ہے۔ دوسری طرف، امریکا اور اس کے اتحادی ان منصوبوں کو ایک جغرافیائی چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کے متبادل کے طور پر ’’بلیو ڈاٹ نیٹ ورک‘‘ جیسے منصوبے پیش کررہے ہیں۔ یہ کشیدگی نہ صرف عالمی معیشت پر اثر ڈالتی ہے بلکہ ان علاقوں میں تنازعات اور سیاسی عدم استحکام کو بھی ہوا دیتی ہے جہاں یہ منصوبے نافذ کیے جا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ میں مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ، اور G5 نیٹ ورک جیسی ٹیکنالوجیز کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔
چین اور امریکا کے درمیان تکنیکی برتری کے حصول کی جنگ دنیا بھر کی معیشتوں کو متاثر کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، ہواوے کے G5 نیٹ ورک پر امریکی پابندیاں ٹیکنالوجی کے میدان میں تحفظ پسندی کی ایک مثال ہیں۔ بڑے ممالک مصنوعی ذہانت کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جس سے اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ خودکار ڈرونز اور سائبر جنگی حکمت عملیوں کے ذریعے مستقبل کے تنازعات مزید پیچیدہ اور مہلک ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ کوانٹم کمپیوٹنگ کے میدان میں برتری حاصل کرنے کے لیے چین، امریکا، اور یورپ کے درمیان زبردست مسابقت جاری ہے۔ واضح رہے کہ کوانٹم کمپیوٹرز موجودہ انکرپشن سسٹمز کو غیرمؤثر بنا سکتے ہیں، جس سے ڈیٹا کی حفاظت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ سیمی کنڈکٹر چِپس کی قلت عالمی سطح پر پیداوار کو متاثر کر رہی ہے۔ دوسری جانب امریکا اور چین کے درمیان چِپ مینوفیکچرنگ کی اجارہ داری حاصل کرنے کے لیے شدید مسابقت جاری ہے۔ طاقتور ممالک کی ٹیکنالوجی پر اجارہ داری ترقی پذیر ممالک کو مزید پیچھے دھکیل سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ کے علاوہ سائبر حملوں اور ڈیٹا چوری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ صنعتی اور تکنیکی ترقی کے ماحولیاتی اثرات بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ ڈیٹا سیکورٹی کے بڑھتے ہوئے کنٹرول کے ساتھ، بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں ترقی پذیر ممالک کے وسائل کا استحصال کر رہی ہیں، جس سے ان کی خودمختاری کو خطرات لاحق ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر منظم ترقی سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے مؤثر قانون سازی کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی اور تجارتی ترقی نے دنیا کی کئی معیشتوں کو مضبوط کیا ہے۔ مثال کے طور پر، ای کامرس اور ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام نے دنیا بھر میں کاروبار کو آسان بنایا ہے۔
ٹیکنالوجی کی دوڑ کے نتیجے میں نئی ایجادات ہوئی ہیں، جیسے الیکٹرک گاڑیاں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے دنیا کے دور دراز علاقوں میں تعلیم کو ممکن بنایا ہے۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ نے ملکوں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان تکنیکی فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور نگرانی کے نظام کا غلط اور غیر محتاط استعمال شہری آزادیوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ موجودہ دور میں جغرافیائی اور تکنیکی کشیدگیوں کے درمیان عالمی تعاون وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اس تعاون کا مقصد تنازعات کو کم کرنا، امن کو فروغ دینا، اور پائیدار ترقی کو ممکن بنانا ہے۔ طاقتور ممالک کو اپنی تکنیکی مہارت اور وسائل کو ترقی پذیر اقوام کے ساتھ شیئر کرنا ہوگا تاکہ دنیا میں ٹیکنالوجی کے فوائد سب تک یکساں پہنچ سکیں۔ اس شراکت کے ذریعے نہ صرف عالمی معیشت مضبوط ہوگی بلکہ مختلف اقوام کے درمیان اعتماد کی فضا بھی پیدا ہوگی۔ عالمی سطح پر ایسے قوانین کا نفاذ ضروری ہے جو ٹیکنالوجی کے منصفانہ استعمال اور سائبر سیکورٹی کو یقینی بنائیں۔ ان قوانین کے مؤثر اطلاق ذریعے طاقتور ممالک کی اجارہ داری کو حد میں رکھا جا سکتا ہے اور چھوٹے ممالک کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ تکنیکی ترقی کے ساتھ ماحولیاتی تحفظ کا خیال رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری اور گرین ٹیکنالوجی کے فروغ سے دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے خوشگوار اثرات سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دینا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ بھی ٹیکنالوجی کے فوائد سے مستفید ہو سکیں اور عالمی معیشت میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔ اس ضمن میں ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی منصوبے اور ٹیکنالوجی میں یکساں رسائی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ وہ بھی دنیا کی تیز رفتار ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عالمی تعاون کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ نہ صرف تنازعات کو کم کرنے کا باعث ہے بلکہ مختلف ثقافتوں، قوموں، اور تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب بھی لاتا ہے۔ یہ ایک ایسا روشن مستقبل تشکیل دیتا ہے جہاں طاقت کی بنیاد مقابلے کے بجائے باہمی اشتراک وتعاون پراستوار ہوتی ہے۔ جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے کہا: ’’اگر آپ تیزی سے جانا چاہتے ہیں تو اکیلے جائیں، لیکن اگر آپ دور تک جانا چاہتے ہیں تو ساتھ جائیں‘‘۔ کامیاب مثالیں: یورپی یونین کا ڈیجیٹل ایجنڈا: یورپی یونین نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذمے دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے قواعد و ضوابط بنائے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف: یہ اہداف دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ اور معاشی ترقی کے لیے ایک جامع منصوبہ فراہم کرتے ہیں۔ بھارت کی ڈیجیٹل انڈیا مہم: یہ مہم ٹیکنالوجی کو عام لوگوں کی پہنچ میں لانے اور ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کا دنیا میں ایک کامیاب ماڈل ہے۔ عالمی تجارتی اور جغرافیائی جنگ اور ٹیکنالوجی کی دوڑ، انسانی ترقی و خوشحالی کے مواقع کے ساتھ عالمی خطرات بھی وابستہ ہیں۔ اس کا حل عالمی باہمی تعاون، اخلاقی اصولوں پر مبنی ترقی، اورشفافیت میں مضمر ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا: ’’آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں؍ محو ِحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی‘‘ انسانی ترقی کا اصل مقصد ایک پرامن، مساوی، اور پائیدار دنیا کی تشکیل ہونا چاہیے، جہاں ٹیکنالوجی انسانی فلاح کے لیے استعمال ہو، نہ کہ تقسیم اور تصادم کے لیے۔