جاگیردارانہ سماج میں لڑکیوں کیلئے تعلیم کا حصول ناممکن، شعر وادب کا پھول کھلنا معجزہ ہے

200
نسرین گل

جاگیردارانہ سماج میں جہاں لڑکیوں کیلئے تعلیم کا حصول ناممکن ہو وہاں شعر وادب کا پھول کھلنا کسی معجزہ سے کم نہیں. پدری سری معاشرے میں پسماندہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا ادبی میدان میں آنا،رات گئے ادبی محفلوں و مشاعروں میں شریک ہونا، اپنی شناخت بنانا اور ساتھ ساتھ گھرداری کی ذمہ داریاں نبھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے.سرائیکی وسیب جہاں جدید دور میں بھی پسماندگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، ایسے سماج میں خواتین کا ادبی میدان آنا اور اپنا لوہا منوانا ایک مثبت تبدیلی ہے۔
پسماندہ ماحول میں پرورش پانے والی جاذب نظر، ہردلعزیز شخصیت، اردو اور سرائیکی کی معروف شاعرہ شبنم اعوان کا تعلق سرائیکی وسیب کے قصبہ پیرا بلوچ تحصیل خانپور ڈسٹرکٹ رحیم یار خان سے ہے. معروف شاعرہ و نثرنگار شبنم اعوان کا اصل نام عابدہ پروین ہے، شبنم ان کا تخلص ہے، لیکن ادبی میدان ہو یا عام زندگی عابدہ شبنم اعوان کو شبنم اعوان کے نام سے جانا اوف پہچاناجاتا ہے.گزشتہ دنوں معروف شاعرہ شبنم اعوان سے ان کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے تفصیلی بات چیت ہوئی جو نذر قارئین ہے.
انھوں بتایا کہ ہوش سنبھالا تو ہمارے گھرانے کا ماحول مذہبی وادبی تھا، میرے نانا احمد بخش گلتر سرائیکی زبان کے معروف شاعر تھے. میں بچپن سے ہی تنہائی پسند تھی، گھر کے قریب کھنڈرات اور ویرانے میں وقت گزارنا بھلا لگتا تھا. تنہائی میں سوچ بچار کرنا، قدرتی ماحول کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کرنا، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے راحت محسوس کرنااور بے ساختہ گنگنا کر انجوائے کرنا میرے روز مرہ معمولات زندگی کا حصہ تھے. شبنم اعوان نے بتایا کہ بچپن سے جوانی تک کی زندگی ادھورے پن کے احساس اور تلاش میں گزری. اردگرد کے ماحول کا باریک بینی سے مشاہدہ، پھر سلگتے معاشرتی مسائل پر مسلسل غمگین رہنا، سوچ وبچار کرنا، شاید میری تکمیل کے مراحل کا یہ ایک مرحلہ تھا اور میں چیزوں سے اس کے خالق کو تلاش کرتے کرتے لکھاری بن گئی.
ادبی سرگرمیوں سے تعلق کے بارے شبنم اعوان نے بتایا کہ میرے شوہر جام رسول بخش نمبردار کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے، ہسماندہ معاشرے اور جاگیردارانہ نظام میں ایک عورت کیلئے ادب کے میدان میں قدم رکھنا انتہائی مشکل ہے، راتوں کو مشاعروں اور دیگر ادبی تقریبات میں شرکت کیلئیدور دراز علاقوں میں جانا بہت کٹھن مرحلہ ہے لیکن الحمداللہ میرے شوہر اور بچوں نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا، حوصلہ بڑھایا، جس کی وجہ سے میں آج اس مقام تک پہنچی ہوں. تصانیف سے متعلق شبنم اعوان نے بتایا کہ میری پہلی اردو شاعری کی کتاب عشق کس کو کہتے ہیں شائع ہوئی. پہلا اردو مجموعہ حمد، نعت، منقبت، غزلوں، نظموں اور قطعات پر مبنی تھا. میری دوسری کتاب اور سرائیکی زبان کا پہلا مجموعہ کلام ً ً اے مونجھ شالا مْک ونجے ً ً شائع ہوا جبکہ ایک اور سرائیکی زبان میں مجموعہ کلام ً ً بوچھن ً ً 2014 ء میں شائع ہوا، جس سے مجھے بے حد پذیرائی ملی. شبنم اعوان نے بتایا کہ اردو زبان میں دوسری کتاب، جو میرا چوتھا مجموعہ کلام ہے، ً ً چٹھی پیر پیا کے نام ً ً 2016ء میں شائع ہوا،جبکہ ایک اور کتاب تکمیل کے مراحل میں ہے. شبنم اعوان نے اپنی شاعری میں عورت کے فطری خوف، مرد کی حاکمیت، معاشرتی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ، سماجی شکست وریخت اور ناانصافی کو موضوع بنایا ہے. ان کی شاعری روز مرہ کے معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتی ہے۔