کسی نے کہا ہے کہ ’’نتیجہ پھر وہی ہو گا سنا ہے سال بدلے گا‘‘۔ لیکن میرے خیال میں جب تک ہم خود کو تبدیل نہیں کریں گے نتیجہ بہتر نہیں آئے گا۔ وقت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ وہ لوگ جو وقت کی قدر کرتے ہیں وقت ہمیشہ ان کی دسترس میں رہتا ہے لیکن جنہیں وقت کا احساس نہیں وقت بھی ان کے ساتھ وفا نہیں کرتا۔ وقت کی اسی غلام گردش میں ایک اور سال ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ کچھ لوگوں کی امید یں بر آئیں اور کچھ لوگوں کے لیے تاریکی اور بڑھ گئی۔ دنیا بھر میں ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہا ہے، کوئی چراغاں کر کے، کوئی آتش بازی اور ڈھول سازندوں کے ساتھ نئے سال کا استقبال کر رہا ہے اور آئند ہ آنے والے سال کے لیے عہد و پیمان کیے جا رہے ہیں۔ نئے سال کی آمد پرانسان کو 2 چیزیں لازمی کرنی چاہئیں۔ سب سے پہلے ماضی کا احتساب، کیونکہ نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔ میں اس نئے سال کو پیغام اُمید کے نام کرتا ہوں کیونکہ امید روشنی ہے، زندگی ہے، اُمید کی ڈور ہاتھ میں تھامنے والوں کے لیے زندگی کا سفر کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو راستہ سہل طریقے سے کٹ جاتا ہے۔ زندگی کے سفر میں کبھی کبھی ایسے موڑ بھی آتے ہیں جب انسان امید اور ناامیدی کے دوراہے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اُمید اور نا اُمیدی کا ایسا ہی ایک لمحہ جب تاریکی ہر طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لے اور مایوسی کے اندھیروں میں کچھ دکھائی نہ دے۔ شریف برادران کو بر سر اقتدار آئے ہوئے اب جبکہ کچھ عرصہ بیت چکے ہیں محنت کشوں کو ان سے امید تھی کہ ان کے دن بھی پھر جائیں ، درد کم ہو جائیں،مہنگائی ختم ہو،معیشت بہتر ہو جائے، لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ محنت کشوں کے لیے ہمیشہ کی طرح 2024 سال بھی کوئی بہتری کا نہیں رہا، ہر شعبہ تنزلی کا شکار رہا، خواہ ملک کی معیشت ہو یا صحت اورصنعتی ادارے کہیں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی۔
بے روزگاری، مہنگائی، کر پشن کا ناسور ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا رہا۔ اب جب کہ قدم سال 2025 کی دہلیز پار کر رہے ہیں تو آج یہی دل چاہتا ہے کہ مایوسیوں کو دفن کر دوں۔ محنت کش ساتھی آگے بڑھیے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کیجیے۔ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر دھرنے کے بجائے بہادری سے اپنا محاسبہ کیجیے۔ حقائق کو قبول کیجیے۔ گزرے وقت کو، حالات کو اور گزرے سال کو کوسنے کے بجائے نئے سال کو نئی امید، نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ خوش آمدید کہیے۔ اگر آپ منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں تو راستے میں بار بار رک کر پیچھے دیکھنا چھوڑ دیجیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ حقیقی کامیابی تک پہنچنے کے لیے کوئی لفٹ موجود نہیں ہوتی، ہمیں ہمیشہ سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ جتنا آپ کے بس میں ہے کم سے کم وہ تو کیجیے۔ اپنا اور اپنے عظیم محنت کش ساتھیوں کا حق ادا کیجیے۔ ایک اچھا شہری اور محنت کش ہونے کا فرض نبھائیے۔
خدا کرے یہ نیا سال تمام محنت کشوں کی زندگیوں میں خوشیوں کی نوید لے کر آئے۔ (آمین)