ٹی ٹی پی سے مذاکرات جنرل باجوہ کا فیصلہ تھا، پی ٹی آئی پر الزام درست نہیں:عمر ایوب

145

اسلام آباد:قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے گزشتہ روز کے بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا تھا، نہ کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا۔

وفاقی دارالحکومت میں دیگر پارٹی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں جنرل باجوہ نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے۔ عمر ایوب کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کا نہیں تھا بلکہ قومی سلامتی کے اجلاس میں لیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک میں سرحدی صورتحال اور اسمگلنگ کے حوالے سے سنگین مسائل موجود ہیں۔ افغانستان کی سرحد پر کوئی پٹواری نہیں بیٹھا جو 550 ارب روپے کا اسمگل ہونے والا پیٹرول روک سکے، اس کے ذمے داران کا تعین ضروری ہے۔

عمر ایوب نے وفاقی حکومت پر خیبرپختونخوا کے فنڈز روکنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے صحت کارڈ کے لیے 3.3 ارب روپے فراہم کیے، لیکن وفاقی حکومت نے صوبے کا 1500 ارب روپے کا حصہ ادا نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب 5 جولائی 2022 کو تحریک انصاف کی حکومت نہیں تھی، اس وقت حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ عمران خان کی حکومت نے ہمیشہ امن کی بات کی لیکن موجودہ حکومت نے ان کے دور کی پالیسیوں کو غلط رنگ دیا۔

اپوزیشن لیڈر نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات ضروری ہیں تاکہ حقائق عوام کے سامنے آسکیں۔

ملٹری کورٹس میں مقدمات کی سماعت پر تنقید کرتے ہوئے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ان عدالتوں میں ملزمان کو مناسب قانونی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔ ان عدالتوں کے فیصلے ہائی کورٹ میں کالعدم ہو سکتے ہیں اور کارکنان کے خلاف مقدمات ختم کیے جانے چاہییں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈی چوک کی صفائی کے دوران امریکی اور برطانوی اسلحہ استعمال کیا گیا۔ انہوں نے اسٹیٹ لائف بلڈنگ سے کی جانے والی فائرنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی نہ صرف غیر قانونی تھی بلکہ عوام پر طاقت کا غیر ضروری استعمال تھا۔

آخر میں عمر ایوب نے کہا کہ عمران خان نے واضح کیا کہ پاکستان کے مفاد میں سب کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق عمران خان کا ہمیشہ یہی موقف رہا ہے کہ تمام مسائل کا حل انصاف اور مذاکرات میں ہے۔