جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے پس منظر میں پاکستان اور جاپان کے تعلقات ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ تعلقات دوطرفہ مفادات پر مبنی اور خطے میں طاقت کے توازن کے لحاظ سے بھی ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات اور بھارت کے جاپان کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات جنوبی ایشیا میں بین الاقوامی سفارت کاری کا ایک اور پہلو ہے جو جنوبی ایشیا میں ایک نئی ڈپلومیٹک صورت حال پیدا کرنے والے محرکات میں سے ایک ہے، ہمارا آج کا موضوع بھی اسی حوالے سے ہے جو چین- پاکستان اور بھارت- جاپان تعلقات کا تقابل کرتا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں چین اور پاکستان کے تعلقات کی ان جہتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جوکئی دہائیوں پر محیط ہیں اور جن کی بنیاد پر ان تعلقات کو انتہائی اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک نے اقتصادی تعاون، دفاعی شراکت داری، اور علاقائی سلامتی کے امور میں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ چین کی ون چائنا پالیسی کے سلسلے میں پاکستانی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے مفاہمانہ رہی ہے۔ اس کے علاوہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ایک حصے کے طور پر پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) بھی ان تعلقات کی ایک مثال ہے، جو نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے اہم ہے بلکہ خطے میں چین کی موجودگی کو بھی مضبوط بناتا ہے۔ اسی تناظر میں اگر بھارت اور جاپان کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو اس کا محور زیادہ تر چین کے اثر رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں اسٹرٹیجک شراکت داری کو فروغ دیا ہے، جس میں دفاعی معاہدے، اقتصادی تعاون، اور خطے میں چین کی توسیع کو محدود کرنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی شامل ہے جو اس معاملے کی دوسری جہت ہے۔ جاپان اور بھارت کی شراکت داری مثلاً ’’ایکٹ ایسٹ پالیسی‘‘ اور ’’کواڈ ری لٹرل سیکورٹی ڈائیلاگ‘‘ (QUAD)، جنوبی ایشیا میں چین کے اثر رسوخ کے خلاف ایک مضبوط محاذ فراہم کرتی ہیں۔
اس صورتحال کی تیسری جہت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت جس طرح روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں بالکل اسی طرح چین اور جاپان بھی تاریخی اعتبار سے ایک دوسرے کے حریف اور مدمقابل ملک سمجھے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ چین اور بھارت اور پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں زیادہ گرمجوشی نظر نہیں آتی۔ تزویراتی ماہرین جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کی ضرورت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ خطے میں بھارت اور چین مسابقت کے تناظر میں، پاکستان کے لیے ایک متوازن پالیسی بہت ضروری ہے جس میں وہ چین سے رابطے کم کیے بغیر جاپان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ایک بیلنس سفارتی حکمت عملی کے تحت فروغ دے۔ واضح رہے کہ جاپان نہ صرف ایک بڑی اقتصادی قوت ہے بلکہ بین الاقوامی فورمز پر ایک بااثر ملک بھی ہے۔ جاپان کے ساتھ قریبی تعلقات پاکستان کے لیے اقتصادی فوائد کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر سفارتی حمایت حاصل کرنے کا بھی اہم ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور جاپان کے تعلقات کو اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات 1952 میں قائم ہوئے تھے۔ جاپان نے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں خصوصی کردار ادا کیا اور جاپانی کمپنیوں نے پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی۔ تاہم، حالیہ برسوں میں یہ تعلقات بھارت- جاپان تعلقات کے مقابلے میں کمزور دکھائی دیتے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ دونوں ممالک کے درمیان فعال سفارتی لابنگ کا فقدان ہے۔
جاپان دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے اور پاکستان کے لیے سرمایہ کاری اور بڑے تجارتی مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جاپانی ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری پاکستان کی صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی شعبے میں بھی جاپان کی جامعات اور تحقیقی ادارے پاکستان کے طلبہ اور محققین کے لیے مواقع فراہم کرسکتے ہیں۔ جس کے لیے سفارتی تعلقات اور اس کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ جاپان کو بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور ملک سمجھا جاتا ہے اور تعلقات میں ایک متوازن حکمت ِ عملی کے ذریعے اقوام متحدہ جیسے فورمز پر جاپان پاکستان کی حمایت کے لیے ایک اہم شراکت دار ہو سکتا ہے، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ بھارت کی لابنگ نے پاکستان کے لیے ایسے کسی امکان کو مبہم کردیا ہے۔ بھارت نے جاپان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے فعال سفارت کاری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت- جاپان پارلیمنٹیرینز فورم جیسے پلیٹ فارمز پر بھارت کی موجودگی نمایاں ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کی جانب سے اس قسم کی سفارتی سرگرمیوں میں شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ جاپان میں پاکستانی سفارتی مشنز کو بھارت کی طرح فعال ہونے کی شدید ضرورت ہے اور ایسے فورمز پر پاکستان کی بھرپور نمائندگی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں گرمجوشی کے فقدان میں چند اور عوامل بھی کار فرما ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ان عوامل میں سے ایک پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا عنصر ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں مختلف حکومتوں کی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان صرف جاپان ہی نہیں دیگر خارجہ محاذوں پر بھی پاکستان کے تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔ پاکستان میں جاپان اور دیگر ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی کے فقدان کی ایک اور بڑی وجہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر فعال لابنگ کی کمی ہے۔ دوسری جانب بھارت نے جاپان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے سفارتی لابنگ کا بھرپور استعمال کیا ہے، سفارتی ماہرین کی رائے میں پاکستان کو جاپان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سفارتی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا ہوگا اور جاپان کے ساتھ مشترکہ منصوبے اور فورمز قائم کرنے ہوں گے۔ ماہرین کی رائے میں یہ حکمت عملی کثیر الجہت بنیادوں پر
وضع کرنے کی ضرورت ہے جن میں اقتصادی حکمت عملی بھی اس کا حصہ ہوگی اس سلسلے میں پاکستان کو اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے جاپان کے ساتھ ٹیکنالوجی اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے ہوں گے، اسی طرح دونوں ممالک کے درمیان تعلیم اور تحقیق میں بھی تعاون کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کو جاپان کی جامعات اور تحقیقی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھانے کی ضرورت کا ادراک ضروری ہے، تاکہ طلبہ اور ماہرین کے لیے مواقع پیدا ہوں۔ سفارتی ماہرین کی رائے میں پاکستانی سیاست کی چند ایسی کمزوریاں ہیں جنہیں دور کرنا بہت ضروری ہیں جن میں سے ایک بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی محدود موجودگی بھی ہے۔
پاکستانی حکومتوں میں عدم تسلسل اور پالیسیوں میں تبدیلی ایک اہم مسئلہ ہے جس پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ مستقل مزاجی کے بغیر طویل مدتی منصوبے ممکن نہیں۔