بدعنوانی کے خلاف نیب کی کارکردگی

132

اے ابن آدم ہمارے ملک میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ کلرک سے لے کر اُوپر تک سب اس ہوس پرستی کا شکار ہیں، دنوں میں کروڑ پتی بننے کی خواہش نے کرپشن کو عام کردیا ہے۔ اب تو جائز کام بھی بغیر رشوت کے نہیں ہوتا، حد تو یہ ہے کہ بااختیار پوسٹوں پر آنے کے لیے بھاری رشوت دی جاتی ہے۔ ماضی میں محکمہ تعلیم میں بے شمار جعلی بھرتیاں ہوئیں، رشوت کا بازار گرم تھا، پیپلز پارٹی کے وزیر تعلیم نے بے شمار بھرتیاں کر ڈالیں مگر وہ تنخواہوں سے آج تک محروم ہیں۔ عدالتوں میں کیس چل رہے ہیں، سابق وزیرتعلیم کو نیب کے حوالے کیا جاتا، مگر سیاسی لوگوں نے وہاں بھی قانون بنادیا کہ 50 کروڑ سے کم کیکرپشن کی کوئی اہمیت نہیں، اس سے اُوپر کے کرپشن پر کیس نیب میں جائے گا، ہمارے نیب زدہ حکمران تمام کیسوں سے باعزت بری بھی ہوئے۔ خیر یہ تو ہو ہی رہا ہے طاقتور کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا ابھی حال ہی میں بلدیہ کراچی محکمہ پارکس میں بدعنوانی پر نیب نے تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ ڈی جی پارکس سے 2016ء سے اب تک پارکوں کی تعمیر اور فنڈز کی تمام تفصیلات مانگ لی ہیں اور ریکارڈ کے ساتھ 13 دسمبر کو پیش ہونا ہے۔ ڈی جی پارکس جنید خان کو چیف سیکرٹری سندھ نے ان کے عہدے سے برطرف کیا تھا ان پر ہرے بھرے درخت کاٹنے کا الزام تھا۔ سابق ڈی جی بھی نیب کے سامنے پیش ہوں گے، ہرے بھرے درخت کاٹنا بھی ظلم ہے، ایسا لگتا ہے کہ درختوں کی بدعا صاحب کو لگ گئی ہے۔ اگر 2016ء سے ایمانداری سے انکوائری کی جائے تو بڑے بڑے کرپشن بے نقاب ہوسکتے۔ ماضی میں بے شمار پارکس کو شادی لان کے طور پر استعمال کیا گیا، نارتھ کراچی میں کئی پارکس کو گود دے دیا گیا، بی اماں پارک بھی کسی خاتون کو دے دیا گیا ہے، جہاں انہوں نے پلے لینڈ کے ساتھ فوڈ کورٹ بھی بنا کر آمدنی کا بڑا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ ایک جھولے کا ٹکٹ 100 روپے سے کم نہیں ہے، فوڈ کورٹ والے بھی ہر کھانے کی اشیا پر ڈبل منافع کما رہے ہیں۔ اخوت پارک بھی کمرشل بنیادوں پر چل رہا ہے۔ ابن آدم کی رپورٹ کے مطابق گلشن اقبال، گلستان جوہر، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد میں بھی کئی پارک کمرشل بنیادوں پر چل رہے ہیں۔ سفاری پارک اور چڑیا گھر کی طرف بھی نیب تھوڑی توجہ دے۔ سلام ہے جماعت اسلامی کے چیئرمینوں کو انہوں نے کراچی کے بے شمار پارکوں کو دوبارہ سے تعمیر کرکے عوام کے لیے کھول دیا ہے۔

نیب کو پولیس کے محکمے کو بھی دیکھنا چاہیے، پولیس کے محکمے میں بھی کرپشن عروج پر ہے، آئی جی سندھ کے احکامات پر کالی بھیڑوں کے خلاف بڑی کارروائی چند دن پہلے سامنے آئی، سندھ پولیس کے 17 افسران اور اہلکاروں کو انکوائری کے بعد سزائیں دے دی گئیں ان پر منشیات فروشوں، گٹکا، ماوا ڈیلرز کی سرپرستی کے الزامات ہیں، کچھ کو تو نوکری سے برطرف کیا گیا ہے کچھ کی عہدے سے تنزلی کردی گئی ہے۔ آئی جی صاحب نے کافی دیر کردی ہے یہ 17 افسران کم از کم کروڑ پتی بن چکے ہیں ان کی نوکری چلی جائے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، کچھ پولیس والے تو خود ماوا اور گٹکا بنا کر فروخت کررہے ہیں، ایک تھانے کی صرف ہفتہ کی آمدنی 25 لاکھ سے زیادہ بنتی ہے، یہ وہ آمدنی ہے جو چھالیہ کا بیوپاری، ماوا اور گٹکا بنانے والے دے رہے ہیں۔ آئی جی صاحب ان سے ریکوری تو نہیں کرسکے مگر ان کو برطرف کردیا۔ اگر نیب اس کام کو کرتی تو ایک بڑی ریکوری ملک کے خزانے میں آجاتی۔ مالی بے قاعدگی، بدعنوانی، رشوت خوری ہمارے معاشرے میں سرایت کرجانے والا ناسور ہے۔ سرکاری اداروں میں تو اس کو حلال سمجھا جاتا ہے کم و بیش دو سو ملکوں میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں یہ مرض سب سے زیادہ ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے نیب کا ادارہ قائم کیا گیا، شروع میں اس ادارے کی کارکردگی بڑی مثالی تھی، سرکاری راشی افسران میں ایک خوف پایا جاتا تھا۔

انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کے موقع پر بیورو کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد نے اپنے خطاب میں قوم کو بتایا کہ پچھلے ایک سال میں اس ادارے نے کرپشن کی مد میں 3 ہزار 8 سو ارب (1357 بلین امریکی ڈالر) برآمد کرکے نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ اس طرح 22 ہزار شکایات نمٹادی گئیں اور 18 ہزار سے زائد متاثرہ افراد کو ان سے ہتھیائی گئی رقوم واپس دلائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کسی بھی شکل میں پائیدار ترقی اور معاشی خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جسے ختم کرنے کے لیے نیب پُرعزم ہے۔ آج شکایات جو 4 ہزار ماہانہ آتی تھیں کم ہو کر 400 رہ گئی ہیں اور جھوٹی شکایات کے اندراج کی حوصلہ شکنی بھی ہوئی ہے۔ نیپرا کے تعاون سے بجلی کے شعبے میں بھی کام کیا جارہا ہے جس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے۔

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کیا خوب بات کی پاکستان جرنیلوں، سرمایہ کاروں کا نہیں بلکہ یہ نوجوانوں کا ہے، کوئی اپنی دولت اور بندوق سے پاکستان کا مالک نہیں بن سکتا، جو بات میں نے لکھی تھی وہ بات بھی آپ نے اپنے خطاب میں کی۔ سندھ یونیورسٹی میں ڈگری کلاسوں کی فیس 19200 اور کراچی یونیورسٹی کی 1,13000 سے اوپر ہے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کو تباہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے، ہمارے ملک میں محسن نقوی اور فیصل واوڈا جیسے لوگ بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ماضی میں یہ کردار حسین حقانی نے ادا کیا۔ خوب مال بنا کر امریکا میں رہائش اختیار کرلی، ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جنرل، چیف جسٹس، سیکرٹری لیول کے لوگ ریٹائر ہونے کے بعد اس ملک میں رہنا پسند نہیں کرتے جس ملک نے اُن کو چیف جسٹس یا جنرل بنایا ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کی آئین میں ترمیم کرلی جاتی ہے۔ 26 ویں ترمیم میں عدالتوں کی سردی اور گرمی کی چھٹیوں کو بھی ختم کرنا چاہیے تھا، ہماری عدالتوں سے بروقت انصاف نہیں ملتا جس سے عوام اور معاشرے میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ یہ قانون بھی بنایا جائے کہ کوئی سیاست دان، جنرل، چیف جسٹس، سرمایہ دار، بیوروکریٹ اپنا سرمایہ ملک سے باہر نہیں لے کر جائے گا اور جو لے کر جاچکے ہیں وہ اپنا سرمایہ ملک میں واپس لے کر آئیں مگر یہ قانون نہ تو موجودہ حکومت بنائے گی نہ موروثی سیاست کرنے والے بنائیں گے ہاں اگر اللہ نے جماعت اسلامی کو حکومت کرنے کا موقع دیا تو اس طرح کے قانون وہ ہی بنا سکتے ہیں، یہ وقت بے حد خطرناک ہے۔ سول نافرمانی کی خان نے کال کا اعلان کیا ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ ہے عوام بھی بے چینی کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں اس سے پہلے کہ مارشل لا کی راہ ہموار ہو قومی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کردیا جائے، تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کی خاطر ایک ہو کر سوچنا چاہیے۔