ایران کی قیادت نے کہا ہے کہ اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ اور یحیٰ سنوار کے قتل کا اعتراف کرکے اب اِس بات کی گنجائش پیدا کردی ہے کہ اُس کے خلاف بین الاقوامی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے یا پھر میدانِ جنگ میں حساب برابر کردیا جائے۔
ایرانی قیادت کا موقف ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں سوا سال کے دوران جو کچھ بھی کیا ہے وہ انتہائی گھناؤنا اور انسانیت سوز ہے۔ فلسطینیوں کو چُن چُن کر شہید کیا گیا ہے۔ شہادتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود عالمی برادری کا کچھ نہ کرنا انتہائی شرم ناک ہے۔ اسرائیل بے لگام ہوچکا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ امریکا اور یورپ اُس کی پشت پر کھڑے ہیں اور اُسے داد بھی دے رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ میں ایرانی مشن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ایران کے لیے اب ایک ہی راستہ بچا ہے، یہ کہ اسرائیل کے معاملے میں لگی لپٹی کے بغیر عالمی برادری کو جھنجھوڑے اور یاد دلائے کہ اب چونکہ وہ اعترافِ جرم کرچکا ہے اِس لیے اُس کے خلاف عسکری قوت استعمال کی جانی چاہیے۔
اقوامِ متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب عامر سعید اراوانی نے ادارے کے سیکریٹری جنرل گوتریس کے نام خط میں لھا ہے کہ اسرائیل نے تسلیم کرلیا ہے اُس نے ایرانی سرزمین پر حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا۔ اس اعترافِ جرم کے بعد اسرائیل پر ایران کی طرف سے 200 سپر سونک میزائل کا داغا جانا بالکل درست ثابت ہوگیا ہے۔
یاد رہے کہ اسماعیل ہنیہ کو جولائی 2024 میں تہران میں اُس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ ایران کے نئے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ حملہ پیجر میں دھماکے کی صورت میں کیا گیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران اور اسرائیل میں براہِ راست ٹھن گئی تھی اور ایران نے اسرائیل سرزمین کو کئی بار نشانہ بنایا۔ دوسری طرف اسرائیل نے بھی ایران کے متعدد مقامات کو نشانے پر لیا اور یہ معاملہ اس قدر خطرناک شکل اختیار کرگیا کہ بڑی طاقتوں کو مداخلت کرنا پڑی اور امریکا نے اسرائیل کو انتباہ بھی کیا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملوں سے گریز کیا جائے۔