قائد اعظم کا پاکستان اسلا می یا فلاحی ریاست کی بحث میں گم ہو گیا ہے ؟

100

قائد اعظم کا پاکستان اسلا می یا فلاحی ریاست کی بحث میں گم ہو گیا ہے ؟محمد علی جاناح کا شمار عصر حاضر کے ان عظیم ترین رہنما?ں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے عوام کو آزادی دلائی بلکہ ان کیلئے ایک علیحدہ وطن بھی حاصل کیا جہاں وہ اپنی تہذیب و تمدن کی نشوونما اور اپنی زندگی قرآن مقدس کی تعلیمات اور اسلامی روایات کے مطابق بسر کر سکیں۔ قائداعظم کا یہ کارنامہ قومی آزادی کے تمام رہنماؤں سے افضل ہے۔ دیگر رہنماؤں نے آزادی کی جدوجہد ایسی ریاستوں کے اندر کی جو کہ پہلے سے موجود تھیں۔ صرف قائداعظم ہی ایسے رہنما تھے جنہوں نے ایسی ریاست کے حصول کی جدوجہد کی جس کا کوئی وجود نہ تھا۔
اسی لیے قرارداد پاکستان کی منظوی کے دو سال کے بعد جب گاندھی جی نے دیکھا کہ قرارداد پاکستان ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے تو انھوں قائداعظم کو ایک لکھا اور یہ توضیع کی کہ ہندو اور مسلمان دو قومیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی قوم ہیں۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے مفروضات کو بالکل غیر حقیقی قرارد دیتے ہوئے تحریر کیا کہ: ’’مجھے تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ نیا مذہب اختیار کرنے والوں اور ان کے ورثاء نے اپنے آپ کو اپنی ابتدائی نسل سے علیحدہ ہو کر ایک علیحدہ قوم کا دعویٰ کیا ہو۔ اگر ہندوستان میں ظہور اسلام سے قبل ایک قوم تھی تو پھر اب بھی اسے ایک ہی قوم رہنا چاہئے۔ اس کے باوجود کہ یہاں کے باشندوں کی کثیر تعداد نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے‘‘۔قائداعظم محمد علی جناح نے اس کا جواب یہ دیا کہ: ’’ہندو اور مسلمان کسی بھی تعریف اور معیار کے مطابق دو قومیں ہیں اور مسلمان بین الاقوامی قانون کے ہر قاعدے کے مطابق ایک قوم ہیں‘‘۔مسلمانان برصغیر کے لئے مطالبہ پاکستان ان کے سیاسی و سماجی تشخص کے عمیق ترین جذبات کا اظہار تھا۔ اس کی جڑیں ریاست مدینہ تک، جسے سرکار دوعالم محمدؐ اور خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے قائم کیا تھا، پھیلی ہوئی تھیں۔ اس اعتبار سے تحریک پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریۂ حیات پر مبنی تھی۔ پاکستان وہ پہلی اسلامی ریاست تھی جس کا قیام اسلامی نظریاتی بنیاد پر ریاست مدینہ کے بعد عمل میں آیا۔
پاکستان کا ظہور ایک نئی ریاست ہی کا ظہور نہیں تھا بلکہ اسلامی نظریۂ حیات پر مبنی ایک ریاست کا قیام تھا۔ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو مسلمان متحدہ ہندوستان میں ہندو انتہاپسندوں کے زیرنگیں ہندو اکثریت میں مدغم ہو جاتے۔ دوسرے تحریک پاکستان کا مقصد صرف چند صوبوں کو علیحدہ کر کے ہندؤں کے تسلط سے آزادی حاصل کرنا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو اقلیتی صوبوں کے مسلمان تحریک پاکستان میں سرگرمی سے حصہ نہ لیتے اسلئے کہ وہ یہ جانتے تھے کہ قیام پاکستان سے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا بلکہ سراسر نقصان ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ وہ صرف ایک خطہ زمین ہی کیلئے جدوجہد نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنی تہذیب و تمدن، زبان و ادب اور اسلامی طرز حیات کی بقاء￿ کیلئے کوشاں ہیں۔مسلمانوں کی علیحدہ وطن کی جدوجہد کے دوران ہندؤں کا رویہ انتہائی مخالفت پر مبنی تھا۔ دراصل ہندو مسلمانوں کے علیحدہ ریاست کے مطالبے سے، جس کا اعلان قرارداد لاہور میں 23 مارچ 1947ء کو کیا گیا تھا، کسی طرح بھی متفق نہیں تھے۔ گاندھی جی نے اسے ’’خودکشی ایک گناہ‘‘ اور ’’مادر ہند کے ٹکڑے کرنا‘‘ قرار دیا جس کی تکمیل ان کی لاش پر ہی ہو سکتی تھی۔
ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ 11 اگست کی تاریخی تقریر میں قائداعظم نے فرقہ پرستی سے پاک ایک ایسے روشن خیال پاکستان کی بشارت دی تھی، جس کے شہری اپنے مذہبی، سیاسی اور مسلکی اختلاف کے باجود قانون کی نظر میں برابر ہیں۔قیوم نظامی اپنی کتاب قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل میں لکھتے ہیں کہ جب قائد اور فاطمہ جناح کراچی ایئرپورٹ پر اتر رہے تھے تو فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’جناح لْک‘ قائد نے نیچے نظر ڈالی اور کہا ’A lot of people‘ یعنی ایک جم غفیر اپنے قائد کو لینے کے یہاں موجود تھا۔ایئرپورٹ پر قائد کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ یہاں سے قائد سرکاری رہائش گاہ پہنچے تو انہوں نے اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ ’میں نے کبھی اپنی زندگی میں پاکستان کے قیام کی توقع نہیں کی تھی۔‘
14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد مسلم ریاست کی حیثیت سے وجود میں آیا اور 15 اگست کو قائداعظم محمد علی جناح? نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ قائداعظم? کی گورنر جنرل کے عہدہ جلیلہ پر تقرری مسلمانان ہند کے واسطے انتہائی مسرت کا موقع تھا جس کا اثر قومی اور بین الاقوامی حالات پر بہت گہرا ہوا۔ دراصل یہ حصول پاکستان کیلئے قائداعظم? کی بے لوث خدمات کا اعتراف تھا۔گورنر جنرل کے عہدے پر سرفرازی نے قائداعظم? کی ذاتی، سیاسی اور سرکاری حیثیت و وقار کو ان کے عظیم ہم عصروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کر دیا۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے ان کی خدمات کو ان غیر معولی حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہئے جو تقسیم ہند کے پیدا کردہ تھے۔ قائداعظم کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سربراہ مملکت کی حیثیت سے ان کی صرف موجودگی ہی مسلمانان پاکستان پر نفسیاتی اثر بیدار کرنے کیلئے کافی تھی۔ صرف آپ کی قیادت اور درخشندہ شخصیت مسلمانوں کو مطمئن و متحرک کر سکتی تھی۔ بحیثیت گورنر جنرل قائداعظم نے بروز جمعہ 15 اگست 1947ء کو قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا کہ: ’’پاکستان کو خدا نے بیشمار قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن اس کو مسلمان قوم کے شایان شان ملک بنانے کیلئے ہمیں اپنی پوری توانائی کو بروئے کار لانا ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب دل و جان سے اس کی تعمیر میں حصہ لیں گے ۔قائداعظمٌ نے اپنے دست راست اور سیاسی جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری لیاقت علی خان کو پاکستان کا وزیراعظم مقرر کیا۔ پاکستان کی پہلی کابینہ میں جن سیاسی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ان میں:
11 اگست1947پاکستان کے ارکان اسمبلی کے خطاب کو پاکستان کا پہلا منشور کہا جاتا ہے۔ اس خطاب میں آپ نے ارکان اسمبلی سے کہا کہ حکومت کا بنیادی کام امن و امان قائم کرنا ہے۔ عوام کے جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کی مکمل حفاطت بھی حکومت ہی کام ہے۔ رشوت، بدعنوانی اور چور بازاری ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ ماضی اور باہمی تنازعات کو نظر انداز کر تے ہوئے باہمی تعاون کریں تو لازمی کامیابی ملے گی۔آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہو یا آخری سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔قطع نظر اس کے کہ اس کا کس فرقہ سے تعلق ہے اس کا رنگ، نسل اور عقیدہ کیا ہے۔قائداعظم نے فرقہ پرستی سے پاک ایک ایسے اسلامی روشن خیال پاکستان کی بشارت دی تھی، جس کے شہری اپنے مذہبی، سیاسی اور مسلکی اختلاف کے باجود قانون کی نظر میں برابر ہیں۔
قائداعظم ایک ہمہ وقت سرگرم عمل سیاسی رہنما تھے۔ یہ ان کی سچی اور پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ بیشمار دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک مقتدر مملکت وجود میں آئی۔ وہ ایک عظیم پارلیمانی رہنما تھے ان کا منطقی استدلال لاجواب ہوتا تھا۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جن کو خریدا نہیں جا سکتا تھا۔ وہ انتہائی جرأت کے پیکر تھے۔ انہوں نے بلاخوف و ڈر مسلمانان برصغیر کے مفاد کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کی شخصیت تدبر، حوصلہ، احساس ذمہ داری، سالمیت، بے باکی اور مقصد سے وابستگی کا آئینہ دار تھی۔ وہ طلباء اور نوجوانوں کو عزیز رکھتے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ نوجوان ہی مستقبل میں ان کے مقصد و مطمحٔ نظر کو فروغ دیں گے۔
یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پر محمد علی جناح نے فرمایا ’’مَیں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے، جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں ۔
قائد نے مزید فرمایا کہ ‘‘ مزید فرمایا ’’ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے، جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچّے اسلامی تصور پر قائم ہو۔‘‘ الغرض، جدوجہدِ ا?زادی کا یہ استعارہ، ا?زادء پاکستان کی خاطر اپنا تن مَن دھن، قربان کردینے والا یہ عظیم رہنما11ستمبر 1948ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرکے علامہ محمد اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بن گیا کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا